کتاب: امام العصر سماحۃ الشیخ علامہ ابن باز رحمہ اللہ - صفحہ 31
شیخ رحمہ اللہ نے اس کا جواب دینے سے اعراض و پہلو تہی کی تو انھوں نے اس محبت کے ساتھ جواب لینے پر اصرار کیا کہ یہ محض لوگوں کے استفادہ کے پیشِ نظر ضروری ہے، اس پر شیخ نے کہا : ’’میں اپنے دل میں کسی بھی شخص کے خلاف کوئی حسد و بغض اور غصہ نہیں رکھتا۔‘‘ نیز دیگر کئی امور میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آپ کے نہ صرف ریاض و سعودیہ اور نہ صرف عالمِ عرب بلکہ پورے عالمِ اسلام کے محبوب ہونے میں اجماع یا تقریباً اجماع ہے۔[1] اساتذۂ عظام: علامہ ابن باز نے بڑے بڑے علماء و فضلاء کے آگے زانوئے ادب و تلمذ طے کیے اور ان سے کسب ِ علم کیا۔ ہم ان میں سے چند کبار اہل علم و فضل کے مختصر تذکرہ پر اکتفاء کرتے ہیں : 1 شیخ محمد بن عبد اللطیف بن عبد الرحمن بن حسین بن شیخ محمد بن عبد الوہاب، جو الریاض میں ۱۲۸۳ھ میں پیدا ہوئے، اپنے والدِ ماجد کے علاوہ شیخ محمد بن عتیق اور دیگر کبار علماء سے کسبِ فیض کیا، تحصیلِ علم سے فارغ ہوئے تو شاہ عبد العزیز نے انھیں القویعیہ اور پھر الوشم میں قاضی کے منصب پر فائز کیا۔ اسی طرح انھیں عسیر و حجاز کے علاقوں میں داعی و مبلغ بنا کر بھی بھیجا گیا اور ان کی دعوت و تبلیغ خلقِ کثیر کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنی۔ جب ان کی بے پناہ صلاحیتوں کا پتہ سلطان عبد العزیز کو چلا تو انھوں نے انھیں سعودی حکومت
[1] الممتاز في مناقب الشیخ ابن باز للشیخ عائض بن عبد اللّٰه القرني (ص: ۳۹) الدرر الذہبیۃ (ص: ۴۴، ۴۵)