کتاب: امام العصر سماحۃ الشیخ علامہ ابن باز رحمہ اللہ - صفحہ 30
تھے، جن میں طلبہ، علماء، مفکرین، ادباء، دانشور، وزراء اور چھوٹے بڑے حتیٰ کہ فقراء و مساکین تک شامل ہوتے تھے۔ آپ کی فیاضی اور کرمِ ضیافت و میزبانی کا یہ عالَم تھا کہ آپ کے چاہنے والوں میں سے بعض لوگوں نے آپ کو دورِ حاضر کا ’’حاتم طائی‘‘ قرار دے رکھا تھا۔ کیونکہ وہ بھی فقیر و محتاج کی معیت کے بغیر اکیلے کھانا نہیں کھایا کرتے تھے۔[1] ان کے اخلاقِ کریمانہ اور کشادہ دلی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر محمد لقمان سلفی صاحب کے بقول الادب المفرد امام بخاری کے شارح شیخ فضل اللہ جیلانی ہندی کی علّامہ ابن باز رحمہ اللہ نے دعوت کی، جب مہمان دستر خوان پر جمع ہوچکے تو شیخ نے گھر کے برتن دھونے والے ملازم کے بارے میں محسوس کیا کہ وہ موجود نہیں ہے، اسے آوازیں دیں،بلوایا کہ وہ بھی ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائے اور جب تک وہ آ نہیں گیا شیخ نے کھانا شروع نہیں کیا۔ مجھ سے شیخ جیلانی نے پوچھا کہ یہ لڑکا کون ہے؟ شیخ کا بیٹا ہے؟ میں نے انھیں بتایا کہ یہ شیخ کے گھر کے برتن دھونے والا ملازم ہے تو انھیں یقین نہیں آیا، پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور کہنے لگے کہ ضعیف کے ساتھ یہ عظیم تواضع اور رحم دلی میں نے اس سے پہلے اپنی زندگی میں کبھی کہیں نہیں دیکھی اور نہ ہی کہی تاریخ میں پڑھی ہے۔[2] محبوبِ خلائق ہونے کا سبب: شیخ عبد العزیز بن محمد السدحان نے ایک مرتبہ شیخ رحمہ اللہ سے پوچھا: لوگوں کے دلوں میں آپ کے لیے جذباتِ احترام ومحبت اور آپ کی اس قبولیتِ عامہ کا اصل سبب کیا ہے؟
[1] البدایۃ والنہایۃ إمام ابن کثیر (۳/۱۹۷) [2] الدرر الذہبیۃ من عیون القصص البازیۃ للشیخ عبد الرحمن الرحمہ (ص: ۶۳)