کتاب: امام العصر سماحۃ الشیخ علامہ ابن باز رحمہ اللہ - صفحہ 29
تواضع: شیخ کی تواضع و انکساری کا یہ عالَم تھا کہ بعض اہلِ علم و فضل نے تجویز پیش کی کہ کھانا کھاتے وقت آپ کے دسترخوان پر ملازم، طالبِ علم، فقراء و مساکین، عرب و عجم سب ہوتے ہیں اور کچھ بڑی (سرکاری و غیر سرکاری) شخصیات کو شائد یہ اچھا نہ لگتا ہو لہٰذا آپ ان عام لوگوں کو الگ کھلادیا کریں اور خود کبار شخصیات کے ساتھ الگ کھایا کریں۔یہ سن کر شیخ کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا اور کہا : ’’مسکین ہیں یہ رائے رکھنے والے، انھیں مسکینوں کے ساتھ کھانا کھانے کی لذت کا اندازہ ہی نہیں۔میں یہی سلسلہ جاری رکھوں گا، جس کا جی چاہے یہیں میرے ساتھ بیٹھے، جسے ہمارے ساتھ اس طرح بیٹھنا اچھا نہ لگے ہم کسی کو بیٹھنے پر مجبور نہیں کرتے۔‘‘[1] کرم و کشادہ دلی: فقراء و مساکین اور محتاجوں کے لیے اتنے جود و کرم کے مالک تھے کہ کبھی کسی کو خالی ہاتھ نہیں لوٹایا، ان کی کشادہ دلی کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے کبھی تھوڑا یا زیادہ مال سنبھال کر نہیں رکھا بلکہ جو ہوتا دے دیتے حتی کہ بعض دفعہ اپنے ماہانہ مشاہرہ کو ختم کرکے ادھار لے کر ضرورت مندوں کو نواز تے اور کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوا کہ بعض ضروری اور قیمتی چیزوں کو بیچ کر مجاہدین اور عام محتاجوں کی ضرورتیں پوری کیں۔ کھانا کبھی اکیلے کھایا ہی نہیں تھا بلکہ ان کے دسترخوان کی وسعت و کشادگی کا یہ عالَم تھا کہ ہر کھانے پر مقامی و بیرونی مہمان سینکڑوں کی تعداد میں ہوا کرتے
[1] إمام العصر (ص: ۹۳) الدرر الذہبیۃ (ص: ۲۳) مواقف مضیئۃ في حیاۃ الإمام ابن باز للشیخ حمود بن عبد اللّٰه المطر (ص: ۴۸، ۴۹)