کتاب: امام العصر سماحۃ الشیخ علامہ ابن باز رحمہ اللہ - صفحہ 28
سر جھکایا اور حکم دیا کہ اسے پندرہ ہزار ہی دے دو اور ساتھ ہی کہا : ’’مجھے لگتا ہے کہ وہ حاجت مند ہے اور اس کی حاجت و ضرورت نے ہی اسے اس جعل سازی پر مجبور کیا ہوگا۔‘‘[1] 4 شیخ کے دفتر کے مدیر شیخ محمد الموسیٰ بتاتے ہیں کہ شیخ کے ایک شاگرد نے، جو کہ ان کے ساتھ ہی کام کرتے تھے، ایک دن خط لکھا جو انتہائی سخت و سست الفاظ پر مشتمل تھا۔ اپنی مظلومی کی دہائی دی، شیخ کے عدل و انصاف پر حرف گیری کی اور لکھا کہ اللہ کے پاس میں آپ کے سامنے کھڑا ہوں گا۔ بات صرف اتنی سی تھی کہ میں عرصہ سے کام کر رہا ہوں اور میری ترقی کے آرڈر آپ نے جاری نہیں کیے۔ شیخ کو خط سنایا گیا، خط مکمل ہو ا تو شیخ رحمہ اللہ مسکرا دیے اور کہا: ’’اللہ اسے معاف کرے۔ اس کے انداز سے مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے یہ اپنے دل میں میرے خلاف کچھ چھپائے ہوئے ہے، اس کو لکھو: اللہ کی قسم !میرے دل میں تمہارے خلاف کوئی بات نہیں بلکہ تم میرے محبوب ترین لوگوں میں سے ہو اور ترقی کے سلسلے میں تم نے کبھی بات ہی نہیں کی۔ یہ خط بدلو، نئے سرے سے لکھو اور اپنا مدعا ذکر کرو، ہم ان شاء اللہ آپ کی ترقی کروانے کی کوشش کریں گے۔‘‘ نیز آخر میں اُس کے لیے توفیق و فلاح کی دعا کی۔ شیخ کا یہ خط پڑھ کر وہ شخص انتہائی شرمندہ ہوا بلکہ شرمندگی سے اس کا چہرہ سرخ ہوگیا اور شیخ سے معافی مانگی۔ انھوں نے اُسے پاس بٹھایا، معاف کیا، پیار کیا، معذرت بھی کی اور دعائیں بھی دیں۔[2]
[1] الدرر الذہبیۃ (ص: ۶۲۔۶۳) [2] الدرر الذہبیۃ (ص: ۴۳، ۴۴)