کتاب: امام العصر سماحۃ الشیخ علامہ ابن باز رحمہ اللہ - صفحہ 26
ضرور اپنی معروف کتاب’’تـذکرۃ الحفـاظ‘‘ میں آپ کے حالات بیان کرتے۔ ان کی قوتِ حافظہ کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی تھوڑی سی جان پہچان والا دسیوں سال کے بعد بھی آکر ملتا اور سلام کہتا تو فوراً اُسے پہچان لیتے اور اس کا نام لے کر اُسے سلام کا جواب دیتے تھے۔ ان کی مؤمنانہ فراست اس سب کچھ پر مستزاد تھی۔[1] میرے علم و معلومات کے مطابق شیخ کو جس طرح پوری اسلامی دنیا میں شرفِ قبول حاصل تھا اس میں ان کا کوئی سہیم و حصہ دار نہیں تھا۔[2] ضیافت و مہمان نوازی: آپ کی ضیافت و مہمان نوازی کا یہ عالَم تھا کہ اگر کوئی شخص یہ قسم کھالے کہ شیخ نے کبھی کسی مہمان کے بغیر اکیلے کھانا نہیں کھایا تو وہ اپنی قسم میں جھوٹا ثابت نہیں ہوگا۔ حِلم و بردباری اور وسعتِ صدر: علم و حلم اور وسعتِ صدر شیخ کے اخلاقِ کریمانہ کا حصہ تھے جس کا اندازہ کرنے کے لیے صرف چند واقعات ہی کافی ہیں : 1 انھیں کسی کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ کئی سال تک آپ کے خلاف زبان درازی کرتا رہا ہے لیکن اب وہ آپ سے معافی کا خواستگار ہے۔ اس پر شیخ نے فرمایا : ’’میں نے اسے اپنا حق معاف کردیا اور اللہ سے امید و دعا ہے کہ اسے ہدایت سے نوازے اور حق پر ثابت قدم رکھے۔‘‘
[1] الإنجاز للشیخ الرحمہ (ص:۴۲ تا ۴۵) [2] مجلۃ الدعوۃ بحوالہ الإنجاز (ص: ۵۷۲۔ ۵۷۸)