کتاب: امام العصر سماحۃ الشیخ علامہ ابن باز رحمہ اللہ - صفحہ 25
دھاک بٹھا رکھی تھی گویا اپنے عالی کردار سے لوگوں پر اپنا احترام فرض کر رکھا تھا۔ آپ کے شاگردِ رشید شیخ عبد العزیز بن محمد السدحان بیان کرتے ہیں کہ آپ کی مجلس انتہائی پُر ہیبت و باوقار ہوتی تھی حتیٰ کہ ان کی صحبت پر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے شیخ امام عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ کی مجلس کا گمان ہوتا تھا جن کے بارے میں علامہ ذہبی نے نقل کیا ہے : ’’لَا یُتَحَدَّثُ فِيْ مَجْلِسِہٖ کَأَنَّہُمْ فِي الصَّلَٰوۃ‘‘[1] ’’ان کی مجلس میں کوئی بات نہیں کیا کرتا تھا گویا کہ وہ نماز میں مصروف ہوں۔‘‘ مؤمنانہ فراست اور قوتِ حافظہ : شیخ عائض القرنی لکھتے ہیں کہ آپ کو قرآنِ کریم کے علاوہ بلوغ المرام، الفیہ ابن مالک، حافظ ابن حجر کی بعض مؤلفات اور شیخ محمد بن عبد الوہاب کی بعض کتب زبانی یاد تھیں۔[2] سب سے پہلے قرآنِ کریم حفظ کیا، پھر طلب ِعلم کے دوران اللہ سے جو قوتِ حافظہ کی دولت پائی تھی اُسی کا نتیجہ ہے کہ صحیح بخاری و مسلم دونوں مکمل طور پر زبانی حفظ تھیں جبکہ سننِ اربعہ اور مسند احمد پر استحضار کچھ ایسا تھا کہ اگر کوئی موقع آتا تو ان کتب کی احادیث و متون، اسانید اور رجالِ اسانید پر محدثین کے کلام سمیت ذکر کیے چلے جاتے تھے۔ آپ انتہائی قوی الحافظہ اور حاضر دماغ تھے۔ ان کا آیاتِ قرآنیہ اور احادیث کا یوں استحضار دیکھ کر تو یوں لگتا تھا کہ اگر آپ علامہ ذہبی کے زمانے میں ہوتے تو وہ
[1] تذکرۃ الحفاظ للذھبي (ص: ۳۳۱) [2] الممتاز في مناقب الشیخ ابن باز للشیخ عائض بن عبد اللّٰه القرني (ص: ۶۸)