کتاب: امام العصر سماحۃ الشیخ علامہ ابن باز رحمہ اللہ - صفحہ 22
پر عمل کو آپ کا اوڑھنا بچھونا بنا دیا حتیٰ کہ آپ ایسے عابد و زاہد اور وسیع العلم علماء سے شمار کیے جانے لگے جو صرف انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔[1] خاندانی پسِ منظر: علامہ مرحوم کا خاندان علم و فضل میں معروف تھا۔ شائد ان کے خاندان کے سب سے بڑے عالم شیخ عبد المحسن بن احمد بن عبد اللہ بن باز (ت ۱۳۴۲ھ) تھے جنھوں نے معروف عالمِ نجد شیخ حمد بن عتیق جیسے کئی کبار اہلِ علم اور اصحابِ فتویٰ و قضاء سے علم حاصل کیا تھا۔ سلطان عبد العزیز آل سعود نے انھیں ۱۳۴۰ھ میں قاضی کے عہدے پر فائز کیا اور الطائف، البیشہ، الجلوۃ، الارطاویہ اور حریملاء میں خدمات انجام دیں لیکن وہ صر ف دو سال اس عہدے پر فائز رہنے کے بعد نابینا ہوگئے اور وفات پاگئے۔ اسی طرح اس خاندان کے دوسرے بڑے عالِم شیخ مبارک بن عبد المحسن بن باز تھے جن کی کنیت ابو حسین تھی۔ انھوں نے بھی علماء سے کسبِ فیض کیا اور انہیں بھی سلطا ن عبد العزیز نے ۱۳۵۶ھ میں قاضی کے عہدے پر فائز کیا مگر جلد ہی انھوں نے استعفیٰ دے دیا اور عبادت و ریاضت کے لیے فارغ ہوگئے۔ غرض علم و فضل کا عنصر آپ کے خاندان میں پہلے سے چلا آرہا ہے گویا آپ ایک علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔[2] شادی: ۱۳۵۴ھ میں چوبیس برس کی عمر میں کریمہ بنت عبد اللہ بن شیخ سلیمان بن سحمان سے شادی کی جسے تین سال بعد طلاق دے دی، یہ طلاق اپنی والدہ کی
[1] الإنجاز (ص: ۱۲۔۱۴) الممتاز (ص: ۲۸۔۳۰) [2] من أعلامنا (ص: ۷) و الإنجاز (ص: ۳۰۔ ۳۳)