کتاب: امام العصر سماحۃ الشیخ علامہ ابن باز رحمہ اللہ - صفحہ 173
اور رکنِ امّت کو الوداع کیا ہے۔ لوگ ان سے مل کر، فون کرکے، خط و کتابت سے، ان کے ریڈیو پروگراموں سے، ان کے اخباری مضامین وپیغامات سے، ان کے کیسٹوں سے اور ان کی کتب و رسائل اور فتاویٰ کے ذریعے مستفید ہوتے تھے۔‘‘
وہ فتویٰ، بحوثِ اسلامیہ اور دعوت وارشاد کے رئیس بدرجۂ وزیر رہے، کبار العلماء کے رئیس تھے، وہ رابطہ عالم اسلامی کی تاسیسی کمیٹی کے صدر تھے۔ مساجد کی عالمی مجلس کے چیئر مین اور فقہ اکیڈمی کے ڈائیریکٹر جنرل تھے، وہ مفتی ٔاعظم تھے۔
سالہاسال مدینہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور چانسلر رہے۔ اتنے بڑے بڑے مناصب پر رہے مگر لوگوں سے کبھی نہیں کٹے، پہرے دار اور سکیورٹی بٹھا کر اپنے آپ کو کبھی اس برج و قلعہ یا صومعہ میں بند نہیں کیا بلکہ ان کا دل، گھر، لائبریری ہر چیز ہر حاجت مند مسلمان کے لیے کھلی رہی۔[1]
7 بحرین:
بحرین کی وزارتِ عدل و امورِ اسلامیہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ شیخ ابن باز کے فقدان سے امّتِ اسلامیہ نے ’’عالم اسلام کا ایک سنگ ِمیل‘‘ کھوہ دیا ہے اور وزارت نے اعلان کیا کہ نمازِ جمعہ کے بعد بحرین کی تمام جامع مساجد میں شیخ کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے۔[2]
[1] الشیخ ابن باز للندوۃ العالمیہ (ص: ۴۱۔ ۴۲) جریدۃ الشرق، جمعہ ۱۴ مئی ۱۹۹۹ء (شمارہ: ۷۴۷۲)
[2] الشیخ ابن باز (ص: ۴۳) جریدۃ البلاد، ہفتہ ۲۹ ؍محرم ۱۴۲۰ھ، ۱۵ ؍مئی ۱۹۹۹ھ، جلد ۶۹ (شمارہ: ۱۵۶۹۳۹)