کتاب: امام العصر سماحۃ الشیخ علامہ ابن باز رحمہ اللہ - صفحہ 119
جماعت کے چند گنے چنے مجدّدین میں سے ایک تھے، ان کے بارے میں کوئی جتنا بھی لکھے کم ہے۔ امتِ اسلامیہ کے نوجوانوں کو چاہیے کہ ان کے خصال واقوال اور افعال و اعمال سے استفادہ کریں۔[1] 11 شیخ رحمہ اللہ علومِ شریعت خصوصاً علمِ حدیث وتوحید اور علمِ فقہ میں نابغۂ روزگار عالم تھے۔ آپ محقّق و مخلص عالم ہونے کی ایک بہترین مثال تھے۔ بڑی بڑی عملی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ملک کے اکثر تبلیغی ودعوتی اداروں اور ادبی کلبوں کے سٹیج آپ کے وجود سے رونق اور ان کے ہال آپ کے دروس سے گونجتے رہتے تھے۔ آپ کی تصنیفات کا طرۂ امتیاز یہ ہے کہ وہ وضاحت ِ معنی،سلیس العبارت، حسنِ اختیار اور قوّتِ دلیل و استدلال سے بھر پور ہوتی ہیں۔(شیخ عبد الرزاق عفیفی رحمہ اللہ ممبر دائمی فتویٰ کمیٹی سعودی عرب، موصوف رحمہ اللہ اپنے ممدوح سے عرصہ پہلے وفات پاچکے ہیں) 12 آپ کثرتِ سوالات سے ذرا نہیں اکتاتے تھے۔ عام لوگوں خصوصاً طلباء کے لیے تو ایک مشفق والد کی طرح تھے، کبھی کبھی کسی سوال کا جواب دینے سے رک جاتے اور مہلت طلب کرلیتے اور یہ تب ہوتا جب وہ مسئلہ اختلافی اور غور و فکر کا متقاضی ہوتا اور عرصۂ دراز کے بعد شیخ کے سامنے آیا ہوتا۔ عقائد میں آپ اعتدال کی بہترین مثال تھے، بات بات پر لوگوں کو کافر قرار دینے والے اور نہ ہی چھوٹے امور سے صرفِ نظر کردینے والے بلکہ آپ ہر چھوٹے بڑے کام پر تنبیہہ کیا کرتے تھے، شرک کو شرک اور بدعت کو بدعت
[1] فضیلۃ الشیخ سلیمان بن محمد المہنّا، نائب رئیس المحاکم الشرعیہ، مکۃ المکرمہ، مذکورہ سابقہ حضرات کے مختصر اقوال کا ماخذ ان کے مقالات و مضامین مذکورۂ کتاب الانجاز (ص: ۵۱۷۔ ۵۵۱) ہیں۔