کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 96
”اس زمانے میں ہندوستان میں وہابیوں کی جانب سے گورنمنٹ ہندنہایت برا فروختہ تھی، اور ان کی جماعت کوسخت خطرناک پولیٹکل جماعت سمجھتی تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ یہ جماعت مولاناا سماعیل (رحمہ اللہ ) کی جامعت سمجھی جاتی تھی، جنہوں نے اپنی تحریک کی بنیاد مسئلہ جہاد پر رکھی تھی، ا ور سکھوں سے عملاً جہاد کیاتھا۔ مولانا اسماعیل کے بعد سید صاحب کی جوجماعت سرحد پر رہ گئی تھی وہ صادق پوری کی امارت میں ازسر نو قائم ہوئی، ا ور اس سے اور انگریزوں سے دوتین مرتبہ مڈبھیڑ ہوئی تھی، ا ور گورنمنٹ کوخیال ہوگیا تھاکہ اب یہ جماعت انگریزوں سے جنگ کرنا چاہتی ہے۔ ا س کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ غدر میں سپاہیوں نے جو فتوے مرتب کیے تھے، ان پر بعض وہابی علماء کی بھی مہریں تھیں ۔ ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ یہ جماعت ملک میں نہایت قلیل تھی اور سوادعظم سے سخت مذہبی مخالفت برپا تھی۔ مخالفین اسے نقصان پہنچانے کے لیے ہر طرح کی کوششیں کرتے تھے۔ ایک بڑی کوشش یہ بھی تھی کہ گورنمنٹ کویقین دلانے تھے کہ یہ جماعت اس کے برخلاف ہے اور جہاد کرنا چاہتی ہے۔، جس کے باور کرنے میں گورنمنٹ کوزیادہ پس وپیش نہ ہوا، کیونکہ جومشہور خاندان ان وہابیوں کے بنگال اور پٹنہ کے گرفتار ہوئے تھے، ان کے یہاں ایک بہت بڑی تعداد ایسی تحریرات کی برآمد ہوئی جن میں انگریزوں کےخلاف دعوت دی گئی تھی۔ اور اس سےانکار نہیں کیاجاسکتا کہ یہ جماعت عام طور پر اس کا اعلان بھی کرچکی تھی اور اس موضوع پر بعض کتابیں بھی لکھی گئی تھیں۔
ان اسباب سےا س زمانے میں گورنمنٹ کوجس کسی پر وہابی ہونے کا شبہ ہوجاتا فوراً گرفتار کرتی، مقدمہ چلاتی، پھانسی، و رنہ کم ازکم کالے پانی، یا حبس دوام کی سزا دیتی۔ چنانچہ اس جماعت کے سینکڑوں علماء، امراء، تاجر کالے پانی بھیجے جاچکے تھے، صرف یہی نہیں بلکہ جن پر مقدمے چلائے جاتے تھے ان کے تمام اہل وعیال بھی تباہ ہوجاتے تھے۔ چنانچہ مشہور وہابیان بنگالہ اور خانداان صادقپور کے نتائج یہی ہوئے، جو ہمت متمول