کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 94
علماء اہل حدیث کی سرفروشانہ سرگرمیاں اکابرین دیوبند کی نظر میں
علماء اہلحدیث کی ان سرفروشانہ سرگرمیوں کا تذکرہ اکابرین دیوبند یا ان کے پٹی داروں اورغیر جانبداروں نے بھی کیا ہے۔
۱۔ آغاشورش کاشمیری جوخود انگریزی استبداد سے نبردآزما اور راہ جہاد کے راہی رہے ہیں، ان کے سامنے جماعت اہل حدیث کی جہادی سرگرمیوں کاپورانقشہ ہے۔ انہوں نے جماعت کی خدمات کااعتراف کرتے ہوئے اپنی ایک تقریر میں کہاتھا کہ ہندوستان کی جنگ آزادی میں سب سے زیادہ خون اسی جماعت کے افراد کا بہاہے۔ موصوف کی مبنی پرحقیقت گرانقدر، بسیرت افروز تقریر کاایک اقتباس ملاحظہ ہو:
”میں اہلحدیث کا اس لحاظ سے معترف ہوں اور مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اس قسم کے گوہر یک دانہ بھی مسلمانوں میں موجود رہے ہوں اور مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اس قسم کے گوہر یک دانہ بھی مسلمانوں میں موجود رہے ہیں جنہوں نے دین کوصحیح کیا، لیکن خود رسواہوئے۔ جنہوں نے اسلام کوبالا کیا، لیکن خود غضب کاشکار ہوگئے، جنہوں نے غیر ملکی استعمار کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، لیکن اپنوں کے ہاتھوں اور پرایوں کے خنجروں سے گھائل ہوتے رہے “۔ [1]
اور آج تک اس کا سلسلہ جاری ہے، ا ور ان بیچارے اللہ والوں پر انگریز وں کی کاسہ لیسی اور ان کی دونوں ٹانگوں کے بیچ پناہ لینے کاالزام بڑی جرأت وبے باکی کے ساتھ عائد کیاجاتاہے۔ اللہ غارت کرے ایسی کوڑھ مغزی اور دریدہ وہنی اختیار کرنے والوں کو۔
۲۔ مولانا عبیداللہ سندھی بھی اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ تحریک جہادمیں غیر مقلدیت کی آمیزش ہوگئی تھی۔ بلکہ ان کےخیال میں تحریک جہاد میں ناکامی کاسبب بھی یہی چیز ہے، مولانا سید سلیمان ندوی نے مولانا سندھی کےخیالات پر نقد کرتے ہوئے اس نظریہ کی سخت تردید کی ہے، اور لکھا ہے کہ تحریک کے علمبرداروں میں جنگ وجدال کے ذریعہ رد بدعت یا اتباع سنت کاخیال کبھی راہ نہیں پایا۔ [2]
[1] ہفت روزہ چٹان ۱۳/نومبر ۱۹۶۷ منقول از تحریک جہاد : اہلحدیث اور احناف (۱۶)
[2] ماہنامہ ”معارف اعظم گڈٖھ فروری ۱۹۴۱ء (ص ۹۹)