کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 91
بہانے سے سے گئےہوئے تھے، ا س تقریب نے وہابیوں کے اجتماع کے لیے ایک آسان حیلہ مہیاکردیا۔ سربرآوردہ حاضرین میں نذیر حسین، محمد حسین لاہوری (بٹالوی ) اور ابراہیم آروی تھے۔ جلسے کے بانی ومہتمم ابراہیم تھے۔ ا ور مقصد یہ تھاکہ ان کا تعاون حاصل کیا جائے، ا ور اس ملک کے دارالحرب ہونے کا اعلان کردیاجائے۔ یہ بھی فیصلہ کیاگیا کہ چونکہ سرحد پر وہابی ریاست کاہندوستان سے رابطہ اور اعانت نسبتاً بہت کمزوپڑگئی ہے، ہندوستان سے مزید رضاکاروں اور امدادکی ترسیل کی کوششیں کرنا چاہیں “۔ [1] نواب صدیق حسن خان کے متعلق تحریک جہاد کے ایک باخبر اور غیر جانبدار مورخ مولانا مسعود عالم ندوی نے یہ اعتراف کیاہے کہ نواب صاحب دل سے اہل صادق پور کے ساتھ تھے، لیکن رقیبوں کےڈرسے اظہار اس کے برعکس کرتےتھے۔ [2] علاوہ ازیں کتاب ”اقبال اور بھوپال “ میں نواب صاحب کا تذکرہ ان الفاظ میں کیاگیاہے : ”علامہ جمال الدین افغانی، مصر کے مفتی محمد عبدہ، ا ور سید احمد شہید کے رفقاء کار سے آپ کا قریبی رابطہ وتعلق تھا، اور آپ ان اسلام ازم کی تحریک کے بڑے حامی تھے۔ چنانچہ اسی بناء پر برطانوی حکومت نے آپ کا نوابی کاخطاب واپس لے لیا اور آپ کوکچھ عرصے بند رکھا“۔ [3] بلکہ (لقد شھد شاھد من أھله) کےتحت مولانا عبیداللہ سندھی کا اعتراف بھی ملاحظہ فرمالیجیے، مولانا سندھی لکھتے ہیں : ”جب مولانا محمد اسماعیل شہید نے ”حجة اللہ”امام عبدالعزیز سے پڑھی، تواپنے جدامجد کے طریقے پر عمل شروع کردیا۔ انہوں نے اپنی ایک خاص جماعت تیار کی، جو
[1] ہندوستان میں وہابی تحریک (ص ۳۳۴۔ ۳۳۵) [2] مولانا سندھی اور ان کے افکار وخیالات پر ایک نظر (ص۱۰۰) [3] اقبال اور بھوپال(ص۵۷۔ ۵۸) خطاب کی واپسی اور حوالات میں نظر بندی شایدآپ کے اظہار وفاداری اور بقول بعض دریدہ دہن مقررن ”انگریزوں کی ٹانگوں کے بیچ پناہ لینے“کی پاداش میں عمل میں آئی تھی ؟