کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 89
طور پر رسم خلعت وعطائے خطاب ادا کی گئی، اور مسٹرہونگٹن کمشنر قسمت میرٹھ نے مولانا کو اپنے ہاتھ سے عمامہ “عباء اور تمغہ حوالہ کیا “۔ [1] مولانا شبلی کے تأثرات کچھ اس طرح تھے : ”میں انگریز گورنمنٹ کی نہایت قدر اور عزت کرتا ہوں، ا ور سمجھتاہوں کہ اس کے تمام احکام اور قاعدے سیاست اور انتظام کے اعلی اصولوں پر مبنی ہیں اور اس بناء پر اس خطاب کی جوگورنمنٹ نےمہربانی سے مجھ کو عطا کیا ہے، نہایت قدر اور منزلت کرتا ہوں۔ “[2] مزید فرماتے ہیں : ”حضرت ! آپ کو معلوم ہے کہ جب کسی ملک میں انقلاب حکومت ہوتا ہے تو نئی حکومت کے تمام آثار کو، علوم کو، فنون کو، تمدن کومٹادینا چاہتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ لیکن انگریز حکومت نے بخلاف اس کے پرانی حکومت یعنی اسلامی حکومت اور نہ صرف اسلامی حکومت بلکہ ہندوؤں کی حکومت کے آثار کوبھی محفوظ رکھنا چاہا ہے۔ “[3] خلاصہ کلام اینکہ حصول خطاب کی خوشی میں جو جلسے جلوس، دعوتیں اورا ستقبالیے عمل میں آئے ان کی کاروائی لکھتے ہوئے مولانا سید سلیمان ندوی ؒ جیسے مختصر نویس بھی ۲۵صفحات سے کم میں مکمل نہیں کرسکے، جس سےصاف ظاہر ہے کہ وہ بھی اس خطا کے قدردان تھے، جامع مسجد دہلی کے امام سیدا حمد کے بارے میں یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ موصوف نےحصول خطاب کی خوشی میں تقریبات کا اہتمام کیاتھایانہیں ؟ لیکن اس میں شک نہیں کہ اس خطاب سے ان کو بڑی محبت تھی، ایسی محبت جس پر اپنے مال وجا ن خویش واقارب کوقربان کیاجاسکتا ہے۔
[1] حیات شبلی (ص۲۵۸) [2] ایضاً(ص۲۵۶) [3] حیات شبلی(ص۲۵۷) کی گئی، ا ن کے برادرخور