کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 88
یہاں ایک امر کی جانب قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا، ہ یہ کہ جس وقت شیخ انکل میاں نذیر حسین محدث دہلوی ؒ کو ”شمس العلماء “ کا خطاب ملاتوآپ کا کیاتاثر رہا اسے بھی نظر میں رکھنا چاہیے۔ ”جب لوگ خلعت وخطاب کے ساتھ میاں صاحب سے ملے اور آپ کو اس سے آگاہ کیاتوآپ نے فرمایا:”ہم غریب آدمی خلعت وخطاب لے کر کیاکریں گے؟ خلعت وخطاب بڑے آدمیوں کوملنا چاہیے، ہم خودنیا لاحاصل ہے“۔ بعد اس گفت وشنید کے آپ نے اسی قدر فرمایا: ”اچھا صاحب آپ حاکم ہو، جوچاہو کہو“۔ [1] اس عبارت کا ایک ایک لفظ اس بات پر دلالت کرتاہے کہ آپ نے اس خطاب پر بادل نخواستہ سکوت فرمایا اورا سے کوئی اہمیت نہیں دی۔ صاف لفظوں میں فرمادیا :” ہم کو دنیا لاحاصل ہے “اگر کوئی انگریز ڈپلومیسی تھی توآپ اس شان بے نیازی نے اسے بالکل ناکام بنادیا“اچھا صاحب آپ حاکم ہوجوچاہو کہو“۔ ا س کے برعکس مولانا شبلی صاحب کے لیےکوششیں کی گئیں، درخواستیں بھیجی گئیں، سفارشات کا سہارا لیاگیا ؛تب کہیں جاکر جنوری ۱۸۹۴ء میں ”شمس العلماء“ کاخطاب ملا۔ اس کی خوشی میں دعوتیں، استقبالیے اور جلسے منعقد کئے گئے جن میں عربی، ا ردو، فارسی میں قصیدے پیش کیے گئے، زیادہ سے زیادہ مؤثر انداز میں عیسائی گورنمنٹ کاشکریہ ادا کیاگیا۔ (تفصیلات حیات شبلی ص ۲۲۶ومابعدھا میں ملاحظہ ہو) ”اس جلسہ کے بعد ۱۷فروری روز شنبہ کو اسٹریچی ہال میں لیڈیز یورپین افسران، رؤسائے علی گڑھ اور طلبائے کالج کا ایک [2]اور عظیم الشان جلسہ ہوا، جس میں سرکاری
[1] تاریخ اہلحدیث (۴۳) اس خطاب کے بعد رسالہ ”دلگداز” لکھنؤ کے ایڈیٹر نے بعنوان ”شمس العلماء “ایک مضمون لکھا جس کا ماحاصل یہ ہے ” مولانا سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی کی عزت افزائی تواس خطاب سے ہوہی نہیں سکتی، لیکن اس خطاب کوعزت وشرف اس نام کی برکت سے ضرور حاصل ہوا“ حوالہ مذکور [2] اس سے بظاہر یہی معلوم ہوتاہے کہ اس سے ماقبل بھی جلسے منعقد کئے گئے تھے، بلکہ عملاً منعقد کئے گئےتھے، درج ذیل حوالہ ملاحظہ ہو۔