کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 85
ذکر کیاگیا ہے:”مدرسہ، دیوبند کے مدرسے کی طرف اشارہ ہے جودیوبند ضلع سہارنپور میں قائم ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مدرسے کے پرنسپل شمس العلماء مولوی حافظ محمد احمد ہیں جو اس ادارے کے مرحوم بانی ( مولانا محمد قاسم نانوتوی ) کے فرزند ہیں وہ وفادار اور شریف آدمی ہیں۔ “ [1] ریشمی تحریک کی دستاویزات میں آپ کا ذکر اس طرح وارد ہوا ہے : محمدا حمد حافظ شمس العلماء، پسر محمد قاسم بانی مدرسہ دیوبند، یہ مدرسہ کا مہتمم یا پرنسپل ہے اور وفادار ہے۔ [2] یہی نہیں بلکہ موصوف کو انگریز دربار شاہی میں کافی اثر ورسوخ بھی حاصل تھا، جس کی ایک جھلک آپ انگریز خان بہادر میسٹن کی خدمت عالیہ میں پیش کی جانیوالی علماء دیوبند کی عرضداشت میں ملاحظہ فرماچکے ہیں۔ اسی اثر ورسوخ کی بناء پر آپ کوسالار قافلہ بنایافیاتھا، ا ور اہالیان دارالعلوم دیوبند نے آپ سے مولانامحمود الحسن کی رہائی کے لیے آخری امیدیں وابستہ کررکھی تھیں۔ اس حاصل شدہ اثر ورسوخ کی تائید ا س امر سے بھی ہوتی ہے کہ دسمبر ۱۹۱۱ء میں جارج پنجم کی ہندوستان آمد کے موقع پردہلی میں ایک بہت بڑے دربار شاہی کا اہتمام کیاگیاتھا جس میں ملک معظم اور مکہ معظمہ نے اپنے وفاداروں کوقریب سے دیدار کا موقع دیاتھا۔ ا س موقع پر عظیم درسگاہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولاناقاسم نانوتوی کے فرزند ارجمند قاری محمد طیب کے والد بزرگوار جناب شمس العلماء مولاناحافظ محمد احمد صاحب بھی بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ دربار شاہی میں آپ کی کرسی مولانا شبلی کے بالکل قریب تھی۔ اسی طرح مولانا محمد احسن نانوتوی کے ربیب مولانا عبدالاحد مالک مطبع مجتبائی کوبھی گورنمنٹ کی طرف سے خلعت اور کاں بہادر کا خطاب عطا کیاگیا تھا۔ [3]
[1] تحریک شیخ الہند (ص ۵۳۔ الجمعیۃ بک ڈپو دہلی) [2] ریشمی خطوط سازش کیس کا تعارفی حصہ ( ۶۲۔ الجمعیۃ بک ڈپو دہلی) [3] ملاحظہ ہو”اسلاف دیوبند اور انگریز حکومت :: تاریخی حقائق کے آئینے میں “از عبدالخالق قدوسی مطبوع درضمن =