کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 84
کھینچے گئے، کالا پانی کی سزائیں جھیلیں، ا ن کے مکانات کوزمین بوس کردیاگیا لیکن چند افراد کی بعض تحریروں کوبنیاد بناکر ان کے سارے کارناموں پر پانی پھیر دیا گیا، اور ان کاجذبہ حریت ہم نوائی میں تبدیل کردیاگیا۔ اسی طرح انگریز سرکار کی جانب سے بعض علماء اہلحدیث کو”شمس العلماء “ وغیرہ جوخطاب ملاتھا اسے بھی اہلحدیثوں کی انگریزنوازی اور انگریز پروری کےلیے لیے بطور ثبوت پیش کیاجاتاہے کہ انگریزی حکومت نے اپنی ہمنوائی ا ور موافقت وتائید کےصلہ میں اہلحدیث علماء کوخطابات سے نوازاتھا۔ یہاں یہی کہاجاسکتا ہے کہ دوسروں کی آنکھوں کاتنکا تونظر آگیا مگر اپنی آنکھوں کا شہتیر نظر نہیں آیا؟ اللہ معلوم آپ کو اپنے گھر خبر ہے یانہیں، ا گر ہے تواسے شاید میٹھی گولی سمجھ کر نگل گیااور یوں ہضم کرگئے گویا کوئی غیرمعمولی بات ہی نہیں ہوئی۔ اگر خبر نہیں ہے تواپنی معلومات میں اضافہ کرلیجیے، ا سے میٹھی یاکڑوی گولی سمجھ کرحلق سے نیچے اتارلیجیے یاحلق ہی میں رہنے دیجیے یہ آپ کے اوپر منحصر ہے۔ لیکن اتنا کرم ضرور کیجیے کہ غیروں پر اتنا زیادہ کیچڑ اچھالنے کی کوشش نہ کیجیے کہ مباداوہ کیچڑ آپ کے دامن شفاف خوداغدار بنادے۔ تو آئیے ملاحظہ فرمائیے : تحریک شیخ الہند کےمرتب مولانا سید محمد میاں صاحب فرماتے ہیں : ”اسی تحریک کے زمانے میں مہتمم صاحبان نے حکومت کے ذمہ داروں سے تعلق رکھاحتی کہ گورنر یوپی خودارالعلوم دیوبند میں مدعو کیا، اس کوایڈریس بھی پیش کیا، [1] اور اس تعلق کا نتیجہ تھاکہ حافظ صاحب (حافظ محمد احمد صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند) کوشمس العلماء کاخطاب دیاگیا“۔ [2] دوسری جگہ مدرسہ دیوبند اور اس کے اس وقت کے مہتمم کاحسب ذیل الفاظ میں
[1] اللہ معلوم گھرمیں دعوت دے کرخان بہادر ار انگریز کوپیش کئے جانے والے ایڈریس کی زبان مولانا محمود الحسن صاحب کی رہائی کے لیے پیش جانے والی عرضی کی زبان کی طرح تحکمانہ اور درشت تھی یامولانا محمد حسین بٹالوی صاحب کے سپاسنامے کی زبان کی طرح متملقانہ اورمؤید انہ تھی، یہ آپ ہی بتلاسکتے ہیں اور شاید اس ایڈریس میں آپ لوگوں نے خان بہادر انگریز کوہندوستان چھوڑنے کا حکم بھی دیا ہوگا، اور عدم مولاات کی دھمکی بھی دی گئی ہوگی۔ لیکن آپ کی کثرت اور سواد اعظمیت بلکہ محیر العقول کارناموں سے ڈر کر آپ کےا کابرین کوانگریز حکومت نےخطابات سے نوازا ہوگا؟ [2] تحریک شیخ الہند ص۱۰۹