کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 82
دارالاسلام ہے۔ [1]
(۳)انگریز سرکارکےخلاف جدوجہد کومولانا رشید احمد گنگوہی فساد سے تعبیر کرتے تھے۔ غلط رپورٹ کی بناء پر جب موصوف کوگرفتار کیاگیا اوران پر مقدمہ چلا توانہوں نے عدالت میں یہی بیان دیا کہ”ہمارا کام فساد نہیں، نہ ہم مفسدوں کے ساتھی “۔ [2]
[1] مذاکرہ علمیہ ص۹ (نول کشور لکھنؤ ۱۸۷۰ء)
[2] اگر آپ سے دریافت کیاجاتا:تم نے سرکار کےمقابلے میں ہتھیار اٹھائے ؟ آپ اپنی تسبیح کی طرف اشارہ کرکے فرماتے کہ : ہمارا ہتھیار تویہ ہے “۔
مولانا عاشق الٰہی صاحب لکھتے ہیں :”آپ نے کبھی کوئی کلمہ دبا کر یازبان کوموڑ کر نہیں کہا کسی وقت جان بچانے کےلیے تقیہ نہیں کیاجوبات کہی سچ کہی اور جس بات کا جواب دیاخدا کوحاضر وناظر سمجھ کر بالکل وقع کےمطابق اور حقیقت حال کےموافق۔ ۔ ۔ “تذکرۃ الرشید (۱/۸۴۔ ۸۵)
اس اقتباس کوذہن نشین کرنے کے بعد نقش حیات (۲/۵۹) کا یہ اقتباس بھی ملاحظہ فرمالیں، اورتضاد بیانی یاصدق بیانی کاخود فیصلہ کریں۔ ہم کچھ عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔ مؤلف نقش حیات مذکورہ واقعہ کوکچھ اس طرح نقل فرماتے ہیں :” آپ پر ( یعنی مولانا رشید احمد گنگوہی پر) علاوہ شرکت جہاد شاملی یہ الزام بھی تھا کہ سپاہیوں کی رائفل ان کے پاس ہے، آپ نے دونوں سے بالفاظ توریہ انکار کیا، حاکم نے پوچھا کہ تم نے خلاف گورنمنٹ ہتھیار اٹھایا: آپ نے فورا جیب سے تسبیح نکالی، ا ور فرمایا: یہ میرا ہتھیارہے، اس نے کہا: وہ بندوق کہاں ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ :مجھ کوبندوق سے کیاسروکار ؟ غرضیکہ ا س کے تمام الفاظ کاجواب اسی طرح دیتے رہے “۔
میرے ناقص خیال میں اس سے بڑھ کرتضاد بیانی کی اور کوئی مثال نہیں ہوگی، الا یہ کہ اس میں بھی کوئی توریہ کیاگیا ہو؟ اورحقیقت کونظروں سےا وجھل کرنامقصود ہوکہ اس قسم کے متضاد بیانات میں اصل حقیقت گم ہوکر رہ جائے کسی کواصل حقیقت کا پتہ نہ چل سکے۔ کیونکہ ہم کوعلمائے پنجتن (مولانا حاجی امداداللہ، مولانا نانوتوی، مولانارشیدا حمد گنگوہی، مولانا محمود الحسن، مولانا حسین احمد مدنی رحمہم اللہ ) سے متعلق تذکروں میں متعدد تضاد بیانی نظر آئی، بالخصوص اہم واقعات کے سلسلے میں کافی اختلافات دیکھنے کو ملے۔ طوالت کے پیش نظر صرف ایک اہم واقعہ بطور نمونہ پیش کیاجاتاہے۔
گذشتہ صفحات میں تذکرۃ الرشید کےحوالے سے حضرت ضامن صاحب کی شہادت اور شجاعت وجوانمردی کے ساتھ امام ربانی، رفیق جانی اور طبیب روحانی کی سرکار مخالف باغیو ں کے ساتھ مقابلہ کا ذکر کیاگیاہے۔ بعینہ یہی واقعہ تذکرہ مشایخ دیوبند (ص۷۱)میں اس کے بالکل برعکس انگریز پلٹن سے مقابلہ کی بات کہی گئی ہے۔ ا وراسی معرکہ میں حافظ ضامن صاحب کی شہادت بھی بتلائی گئی ہے، ا ور کچھ مزید تفصیلات کے ساتھ اسی واقعہ کوبالکل دوسرے ڈھنگ سے تاریخ دارالعلوم دیوبند (۱/۵۰۶۔ ۵۰۷) میں بیان کیاگیاہے، جس میں انگریز فوج کے قلعہ بند ہونے، مولانا نانوتوی صاحب کے تحصیل کے پھاٹک کوآگ لگانے اور انگریز فوج کے ہتھیارڈالنے کا تذکرہ ہے، ا ور ہتھیار ڈالتے وقت انگریز فوج کی گولی سے ضامن صاحب کی شہادت کا ذکر ہے جبکہ ان دونوں کتابوں میں حضرت نانوتوی کے کرامت کوئی تذکرہ نہیں ہے۔
اور اسی واقعہ کی تیسری بالکل جداگانہ تفصیل اگر دیکھنا چاہیں تونقش حیات (۲/۴۳۔ ۴۴) میں ملاحظہ فرمالیں۔ اس کےمطابق مولانارشیدا حمد گنگوہی نے (جن کوحاجی امداداللہ صاحب نے تیس چالیس افراد پرا فسر مقرر کیاتھا) اپنی جنگی مہارے سے کام لیتے ہوئے اگریز فوج کوبوکھلاہٹ میں مبتلا کردیاجس سے وہ اپنا توپخانہ چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوگئے، حضرت گنگوہی صاحب نے وہ توپخانہ حاجی امدا داللہ صاحب کی مسجد کے سامنے کھینچ کرلاڈالا اسی میں حضرت ضامن کی شہادت بھی ہوئی، ا ور ان کی شہادت کے بعد حالات کا قنشہ بالکل تبدیل ہوکررہ گیا، ا ور جنگ کی کایاپلٹ گئی، تنہا ایک عورت کھیت میں چھپے انگریز کواپنے اوزار سے قتل کردینی تھی، مگر حضرت ضامن کاشہید ہوناتھا کہ انگریز کی جرأت میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا۔ اور ایک چوتھی مولانامحمد یعقوب صاحب نانوتوی کی بیان کرہ تفصیل بھی ہے جومقدمہ سوانح قاسمی (۱/۲۷) میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے، اہلحدیثوں کی ڈائری تیار کرنے والے بناوٹی محققین ہی اس سے راز سے پردہ اٹھاسکتے ہیں کہ ان متضاد بیانات کوکیا کہاجائے گا۔