کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 81
ثبوت پیش کیاجاتاہے [1] مذکورہ دونوں کتابوں کے مشتملات سے دلائل کی روشنی میں اختلاف کیاجاسکتاہے، لیکن ان دونوں کتابوں کو پوری جماعت اہل حدیث کی انگریز نوازی کےلیے دلیل بنانا سراسر زیادتی ہے۔ ان دونوں کتابوں کی تالیف جن حالات وظروف کے پیش نظر عمل میں آئی ان کو نظروں اوجھل نہیں ہونے دینا چاہیے ۔ ا سکے باوجود خود علماء احناف بلکہ علماء دیوبند کے لٹریچر میں آپ کو بے شمار ایسی تحریریں ملیں گی جو مذکورہ دونوں کتابوں کی تحریروں سے اگر افزوں نہیں تو فروتر بھی نہیں ہیں۔ بعض کاتذکرہ پچھلےصفحات میں گزرچکاہے بعض دیگر تحریریں مزید ملاحظہ فرمائیں۔
(۱)مولوی محبوب علی دہلوی : تحریک جہاد میں سیدا حمد شہید رحمہ اللہ کے ساتھ تھے، بعد میں الگ ہوکر تحری جہاد کےخلاف ایک محاذ کھول لیا، اورخاصا نقصان پہنچایا۔ چنانچہ مولانا جعفر تھانیسری رحمہ اللہ لکھتےہیں :”مولوی محبوب علی کے اغوا ء سے کاروبار جہاد کوجوصدمہ پہنچا ویسا صدمہ اس لشکر کوآج تک کسی سکھ یا درانی کے ہاتھ سے نہیں پہنچتا تھا“ [2]
(۲)مولانا کرامت علی جونپوری حنفی مکتب کے مشہور بزرگ ہیں۔ سیداحمد شہیدکےخلفاء میں سے تھے، لیکن تحریک سے الگ ہو کرا نہوں نے حکومت کی موافقت میں جہاد کےخلاف فتوی دیاتھا۔ [3] آپ کا یہ فتوی دراصل ایک تقریر ہے جو ایک مذاکرہ علمیہ میں موصوف نے کی تھی، اس تقریر میں موصوف نے اس قول کوکہ ”ہندوستان دارالحرب ہے“ صرف وہابیوں کا عقیدہ قرار دیا ہے اور کہاہے کہ تمام حنفیوں کے نزدیک
[1] اول الذکر کتاب کےخلاف پروپیگنڈہ کیاجاتاہے کہ اس میں مولانا بٹالوی صاحب نے منسوخ جہاد کا فتویٰ دیاہے، جوسراسر غلط اور بہتان تراشی ہے۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ مولانا نے حالات سے مجبور ہوکر یہ کتاب لکھی اور اپنے طور پر جہاد کی تعریف، اس کی ضرورت اور شرائط پر بحث کی ہے، ا ور انگریز مبصر ہنٹر کی اسلام اور جہاد کےمتعلق غلط بیانی کا جواب دیاہے۔ تفصیل کےلیے ملاحظہ فرمائیں برق توحیدی کی جمع کردہ کتاب ”علماء دیوبند اور انگریز“(ص ۶۷) اور مولانا محفوظ الرحمٰن فیضی کی کتاب ”شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے بارے میں دومتجاد نظریے“۔
[2] حیات سیدا حمد شہید (ص۲۳۶، نفیس اکیڈمی کراچی)
[3] تذکرہ علماء ہند( اردو ترجمہ از محمد ایوب قادری، ص۳۹۶)