کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 80
محض ایک شخص کی رہائی کے لیے انگریز خان بہادر کے سامنے چاپلوسی اور تملق کی آخری حدود کو بھی تجاوز کرگئے اور ان کی سپوتیت بھی برقرار رہی۔ یہاں یہ واضح کردینا مناسب ہوگا کہ جس شخص کی رہائی کے لیے اتنے جتن کئے گئے ان کو عرش خداوندی تک رسائی حاصل تھی۔ انگریزوں کوہندوستان سے جلد ازجلد نکالنے کی اصرار پر مبنی درخواست لے کر وہاں تک تشریف لے گئے تھے، نقش حیات کامندرجہ ذیل اقتباس ملاحطہ فرمائیے : ”ایام تحریک خلافت میں ایک بزرگ نقشبندی صاحب کشف دیوبند آئے، مولانا کا وصال ہوچکاتھا، حضرت نانوتوی کے مزار پرحاضر ہوکر مراقب ہوئے، دیر تک مراقبہ میں رہے، بعد کو فرمایا کہ میں نے مراقبہ میں حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ سےخلافت کی تحریک میں حکام کی سختیوں کا تذکرہ کیا توحضرت مولانا محمود حسن کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ مولوی محمود حسن عرش خداوندی کوپکڑے ہوئے اصرار کررہےہیں اصرار کررہےہیں کہ انگریزوں کوجلد ہندوستان سے نکال دیاجائے “ اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد مؤلف نقش حیات تبصرہ فرماتے ہیں: ”واقعہ یہی ہے کہ مولانا مرحوم کی معنوی اور روحانی جدوجہد انگریزوں کے نکالنے اور ہند کےآزاد کرانے میں ظاہری اور مادی جدوجہد سے بدرجہازائدا ور فائق تھی“ [1] اگر جماعت اہلحدیث کے افراد حالات اور غیروں کی ریشہ دوانیوں سے مجبور ہوکر یہی اسلوب ورویہ اختیار کرتے ہیں توان کو بلکہ پوری جماعت کوانگریز وں کا نہ صرف ہم نوابلکہ پروردہ قرار دے دیاجاتاہے، اور ان کی عظیم سے عظیم ترقربانیوں خودریابرد کردیاجاتاہے۔ مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ علیہ کی کتاب ”الاقتصاد فی مسائل الجہاد“ نیز نواب صدیق حسن خاں بھوپالی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ”ترجمان وہابیہ“ کوبھی اہلحدیثوں کی انگریزنوازی کےلیے بطور
[1] نقش حیات (۲/۶۳) یہ خواب کی بات نہیں بلکہ حالت بیداری اور مراقبہ کی بات ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شب معراج میں سدرہ منتہی تک ہی رسائل حاصل ہوسکی، ان کےعلماء کرام عرش خداوندی تک رسائی حاصل کرلیتے، اور اصرار کے ساتھ اپنی بات منوالیتےہیں، گویا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اعلیٰ وارفع مقام ان کو حاصل ہے، موت کےبعد بھی ان کےعلماء کرام کلام کرتےہیں۔