کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 8
ترجمہ: اپنےرب سے میں نے تین خصلتوں (باتوں) کامطالبہ کیاجن میں سے دوباتیں اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالیں، اورتیسری بات سے مجھےمنع کردیا۔ اللہ تعالیٰ سے میں نے طلب کیاکہ ہمیں ان عذابوں سے نہ ہلاک فرما جن کے ذریعہ سے پچھلی امتوں کوہلاک کیاکرتاتھا۔ ا للہ تعالیٰ نے میری یہ بات قبول فرمالی۔ اللہ تعالیٰ سے میں نے یہ طلب کیاکہ ہم دشمنوں کو مسلط نہ فرماتو اللہ تعالیٰ نے میری یہ بات بھی قبول فرمالی۔
اورمیں نے اللہ تعالیٰ سے یہ بھی طلب کیاکہ ہمارے درمیان اختلاف پیدا نہ کر۔ اللہ تعالیٰ نے میری یہ بات قبول نہیں فرمائی۔
لہٰذا امت کا آپس میں تصادم مشیت الٰہی کی بناء پر ناگزیر تھا، لیکن اس صورت حال میں بھی فرمان نبوی ” لا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ لَعَدُوِّهِمْ قَاهِرِينَ لا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللَّهِ۔ “ [1]
ترجمہ: ”میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہےگی، ا ن کومخالفین کوئی گزند نہیں پہنچاسکتے، یہاں تک کہ اللہ کا حکم آن پہنچے“ کے بموجب ہمیشہ اور ہردورمیں ایک جماعت ایسی رہی ہے جس نےکسی قسم کے خارجی اثرات قبول کیے بغیر اپنے آپ کوعہد اول سے مربوط رکھنے کی کوشش کی، کتاب وسنت سے اپنے تعلق اور رشتے کو مضبوط رکھتے ہوئے عقیدہ وعمل کوہر طرح کی آمیزش سے محفوظ رکھا۔ ا ور اسی جماعت نے بعد میں بطور علامت اور دوسروں سے امتیازی حیثیت حاصل کرنے کی غرض سےاپنے لیے لفظ ”سلف“ کاانتخاب کرتے ہوئے اس کی طرف اپنی نسبت کی۔ لیکن عجب ستم ظریفی ہے کہ جس جماعت نے متقدم یامتاخر، عربی یاعجمی کسی ایک شخصیت میں اپنے کومحصور نہ کرکے قرون اولیٰ کی پوری جماعت سے اپنے آپ کومنسلک رکھنے کا اہتمام کیااور صدر اول کے نہج اور طریقے پر کاربند رہنے کو اپنا شعار بنایا آج اسی جماعت کو داخلی
[1] متعدد صحابہ کرام سے یہ حدیث مروی ہے، ا ور ان میں سےبعض کی روایات صحیحین میں موجودہیں۔ تفصیل کےلیے ملاحظہ ہوسلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ (۴/۵۹۹نمبر۱۹۵۷)