کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 79
کرے، جس کی آزادی سے ایک عظیم الشان جماعت اسلام کے جذبات اسیراحسان ہوجائیں گے اور دارالعلوم کے درودیوار میں عمیق شکرگزار کا ایک ایسا ابلتا ہوا جوش نظر آئے گا جوشاید اس سے پہلے کبھی نظر نہ آیاہو۔ ہم کو ہزآنر کے ان وسیع اخلاق والطاف سے جوآج تک ہماری جماعت کی نسبت کام فرمائے گئے ہیں [1] کامل یقین ہے کہ ہماری یہ عرضداشت بے اثر نہیں جائے گی، ا ور ہزآنر کوئی ممکن مہربانی اس معاملہ میں اٹھا کرنہیں رکھیں گے۔ اخیر میں ہم سمع خراشی کی معافی چاہتے ہیں، دعا کامیابی وفلاح [2] پر اس ناچیز تحریر کوختم کرتے ہیں۔ ہم ہیں آپ کےصادق خیر اندیش اور وفاکیش[3] علماء دیوبند ۱۸/محرم ۱۳۳۶ھ=۶/نومبر ۱۹۱۷ء [4] قارئین کومذکورہ بالا عرضدار شت کی زبان، خصوصاً خط کشیدہ الفاظ کے تحکمانہ اسلوب (؟) کوملاحظہ فرمائیں اور مولانا بٹالوی ؒ کے سپاس نامہ کی زبان سے ان کا موازنہ کریں، اور خود فیصلہ کرلیں کہ انگریز وں کا ہم نواکون ہےا ور کون نہیں ؟ شاید یہاں بھی حکمت ومصلحت کی بیساکھی کےذریعہ اس تحریر کےظاہری مفہوم کوبدلنے کی کوشش کی جائے توواضح ہونا چاہیے کہ تحریک جہاد اور جنگ آزادی کا سارا کریڈٹ اپنے کھاتہ میں ڈالنے کا شوق بھی ہے اور ہر جگہ مصلحت آمیزی بھی ہے۔ یہ ہیں تحریک آزادی کے سپوت، نہیں بلکہ عظیم سپوت، جو
[1] ہزآنرخان بہادر کے یہ وسیع اخلاق والطاف جوآپ کی جماعت کی نسبت کام فرماگئےتھے آخر کس خدمت کی پاداش میں؟ کیاانگریز سرکار کےخلاف سرگرم ہونے کی وجہ سے آپ کی جماعت کوخان بہادر کی یہ نوازشات حاصل تھیں ؟؟!! [2] فرمائیے! کامیابی وفلاح کی دعا کس کےلیے کی جارہی ہے ؟ تحریک آزادی کے لیے یا انگریز سرکار کےلیے ؟؟ [3] یہاں ہم مولوی ابوبکرغازی پوری سے پوچھنا چاہیں گے کہ بتلائیے یہ گولی میٹھی ہے یا کڑوی۔ خواہ کیسی بھی ہو اس کو آپ بآسانی ہضم کرسکتے ہیں اور ہضم کرکے اس طرح کارڈ لےلیں گے کہ گویا اس نوعیت کا کوئی معاملہ ہواہی نہیں۔ [4] منقول از”ألرشید“دیوبند رجب ۱۳۳۶ھ بحوالہ تحریک جہاد اہلحدیث اور احناف ص ۸۶۔ ۸۹