کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 78
مسز اینی بسنٹ کے واقعہ سے جویورپین ایسوسی ایشن کے ذہین ارکان کویہ خیال پھیل جانے کا اندیشہ ہواہےکہ گورنمنٹ کے دربار میں بے ادب شوروغل مچانے اور ایجی ٹیشن برپا کرنے والے بہ نسبت اعتدال پسندوں کےز یادہ کامیاب ہوتے ہیں اگر یہ اندیشہ کسی درجے میں وزن رکھتا ہے تو اس کی تلافی کا طریقہ بھی غالباً اس سے بہتر اس وقت کوئی نہ ہوگا کہ گورنمنٹ ایک بالکل خاموش اور سیاسات سے محض بے گانہ جماعت کی استدعا پر حضرت مولانامحمودحسن صاحب کو فوری آزادی مرحمت فرماکر ہماری کل جماعت بلکہ کل اسلامی پبلک کے قلوب سے خراج منت پذیری واحسان شناسی وصول کرےا ور اپنے اس طریق عمل سے عام طور پر ثابت کردے کہ خاموش امن پسند بھی ایجیٹروں سے زیادہ کامیاب ہوسکتے ہیں۔
حضور والا ! تیس چالیس برس کے کامل تجربے کے بعد ہم کو یہ کہنے میں ذرا بھی پس وپیش نہیں کہ حضرت مولانا محمود حسن صاحب ساری عمر تمام جماعت دیوبندہی کی طرح سیاسی الجھنوں سے الگ تھلگ رہے، نہ تو وہ کوئی وطن پرست آدمی ہیں اور نہ قوم پرست، بلکہ ایک خدا سچےخدا پرست انسان ہیں، ا نسان جب تک انسان ہے، سہو ونسیان اور غلط فہمی کا شکار ہوسکتاہے لیکن ایک پاکباز انسان بدنیت نہیں ہوسکتا، اسی لیے ہمارے واسطے اپنے سابق چہل سالہ تجربہ اور حضرت مولانا کے قلم کی لکھی ہوئی بعض تحریروں پر نظر کرتے ہوئے گورنمنٹ صوبہ جات متحدہ کا یہ اعلان کہ ”تحریری اوردوسری قسم کی شہادتوں سےثابت ہوتاہے کہ مولانا محمود حسن صاحب نے ہزمجسٹی ملک معظم کے دشمنوں کو ان کی فوجی تجاویز میں مدد دی“اگرچہ نہایت حیرت انگیز اور رنجیدہ ہے لیکن جبکہ ان تحریری اور دوسری قسم کی شہادتوں سے واقف ہونے اور ان کے پرکھنے کا ہمارے لیے کوئی موقع نہیں ہے، توہم راستہ کومختصر کرنے کےلیے صرف اسی قدر گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ اگر مولانا ممدوح کی آواز گورنمنٹ کے کانوں میں چند سیاسی لوگوں کی آواز کےس اتھ ملتبس ہوکر پہنچی ہے تب بھی وہ ازراہ کرم گستری ورعایا نوازی ایک ایسی شخصیت کے آزاد کرنے میں دریغ نہ