کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 77
مسلمانان ہند کے واحد مذہبی مرکز کا سب سے بڑا اعزاز اور ہندوستان کی عام پبلک کے حق میں نہایت ہی تسکین واطمینان کا باعث اور خود حکام گورنمنٹ کے لیے بھی بجائے اس وقت تکدر کے بڑی حد تک حقیقی راحت وسہولت حاصل ہونے کی ضما نت اور اس کی مدبرانہ حکمت عملی کا جس سے عام اہل اسلام کے قلوب مسخر ہوجائیں ایک گہرا ثبوت ہوگا۔
ہماری جماعت کے محسن شفیق ہزآنر سے یہ امر پوشیدہ نہیں کہ حضرت مولانا محمود حسن صاحب مدرس کی غیر متوقع نظر بندی سے(خواہ وہ گورنمنٹ کے نزدیک کیسی ہی قوی دلیل پر مبنی ہو) دارالعلوم کی اجتماعی حالت کوایک صدمہ عظیم برداشت کرنا پڑا ہے، اوراب بار بار ان کی رہائی کی امیدیں قائم کرتے رہنے کے بعد دارالعلوم کے دوست اور اس کے کثیر التعداد مستفید ین ان کی طویل مفارقت سے نہایت ہی بے چین اور شکستہ خاطر ہوکر دارالعلوم کی مرکزی حیثیت اور اس کے وفد کے سالار قافلہ شمس العلماء مولانا مولوی حافظ محمدا حمد صاحب کے رسوخ ووجاہت خداداد سے اپنی آخری امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں جس میں اولاً خدا کی رحمت اور ثانیاً ہزآنر کی عنایت خاصہ سے توقع ہے کہ وہ مایوس نہ کیے جائیں گے ۔
اس بات کے اظہار کی ہم چنداں ضرورت نہیں سمجھتے کہ ہماری جماعت ایک قدامت پسند جماعت ہے، جس کو قدرتی طور پر طلب حقوق یا عرض مدعا کے نئے نئے طور طریق سے جوآج کل مروج ہیں قطعاً مناسب نہیں “۔
اس بات کےا ظہار کی ہم چنداں ضرورت نہیں سمجھتے کہ ہماری ایک جماعت ایک قدامت پسند جماعت ہے، جس کو قدرتی طور پر طلب حقوق یا عرض مدعا کے نئے نئے طور طریق سے جوآج کل مروج ہیں قطعاً مناسبت نہیں “۔
اس کے بعد عرضداشت میں آئینی یا غیر آئینی ایجی ٹیشن برپاکرنے کی قباحتوں کا ذکر کرتے ہوئے اسے نامناسب عمل بتلایا گیاہے، مسز اینی بسنٹ کی رہائی کا تذکرہ ہے پھر ان کےا ور شیخ الہند کے معاملوں کے مابین موازنہ کیاگیاہے۔
اس کے بعد یہ عبارت وارد ہوئی ہے :
”حضور والا! یہ نکتہ کاص طور پر ہزآنر جیسے بیدار مگز حاکم کی توجہ کے قابل ہے کہ