کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 76
میں متعددعرضیاں گزاریں، رحم کی درخواست کی۔ انگریز سرکار کے تعلق سے بالکل اسی طرح کی زبان ان عرضیوں میں بھی استعمال کی گئی ہے جس زبان کی وجہ سے نہ صرف مولانا بٹالوی بلکہ جماعت اہل حدیث کو انگریزوں کا ہم نوا اور پروردہ قرا ر دیاجاتاہے، بلکہ اس سے کہیں زیادہ متملقانہ اندازاختیار کیاگیا۔ ذیل میں ہم ایک عرضدارشت کی نقل درج کررہے ہیں، تاکہ قارئین پروپیگنڈوں سے متأثر نہ ہوکرحقیقی صورتحال سے آگاہ ہوجائیں۔ نقل عرضدار شت وفد علماء دیوبند جوبتاریخ ۶/نومبر ۱۹۱۷ء ہزآنر جیمس میسٹن بہادر کے، سی، ایس، آئی لفٹنٹ گورنرصوبہ متحدہ آگرہ واودھ بمقام میرٹھ پیش کی گئی اور سنائے گئی : ”بحضور عالی جناب معلیٰ القاب ہزآنرسرجیمس اسخارجی میسٹن صاحب بہادر کے، سی، ایس، آئی لفٹنٹ گورنر ممالک متحدہ آگرہ واودھ : حضور والا ! ہم چندخدام دارالعلوم دیوبند بحیثیت یک خالص مذہبی جماعت کی مرکزی نمائندگی کے آج ایک اییسے اہم مسئلہ کی طرف ہزآنر کی وجہ گرامی منعطف کرانا چاہتے ہیں، جو اپنی بعض سیاسی حیثیات سے اگرچہ ہمارے دائرہ بحث کے اندر داخل نہ ہو، لیکن اس کا وہ مذہبی پہلو جس کا تعلق ادرالعلوم کی کارکن جماعت سے اور دارالعلوم کی مددکرنے والے عام مسلمانوں سے ہے، کسی وقت بھی نظرانداز نہیں ہوسکتا۔ حضور والا !ہم اپنی اسی فطری سادگی اور صفائی کی راہ سے ( جس نے ایک دوردراز تکلف مذہب کے سایہ میں تربیت پائی ہے اور جس کو ہزآنرکی مہربانی سےگورنمنٹ کےعمل نے بھی آج تک مرہون ضوابط نہیں بنایا) اس وقت جوکچھ نہایت مؤدبانہ گزارش کریں گے، ممکن ہے کہ وہ حالات حاضرہ پر نظر کرتے ہوئے تھوڑی دیر کےلیے ہزآنرکے، یاگورنمنٹ کے بعض دوسرے اعلی حکام کے مزاج کو منغص [1] بنادے، لیکن سچ یہ ہے ( اور سچ ہی ہم کو ہمیشہ کہنا چاہیے ) کہ حالات حاضرہ ہی وہ چیزیں ہیں جنہوں نے ہم کو ایک ایسے معاملے میں دخل دینے کی ہدایت کی ہے، جس میں اگر ہم کامیاب ہوجائیں توہم سمجھتے ہیں کہ یہ
[1]