کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 74
جماعت جب اپنا کوئی معاملہ آتا ہے تو اس کا انداز فکر کچھ ہوتاہے اور جب اہلحدیثوں کا معاملہ آتاہے تواس کے انداز فکر میں یکایک آجاتی ہے۔ مذکورہ حقائق جن سے تمام علماء دیوبند کی ”انگریز دشمنی “ کی قلعی کھل کر سامنے آجاتی ہے ان کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ انگریزی حکومت سے ارباب مدرسہ کی یہ وفاداری مصلحت وحکمت پر مبنی تھی تاکہ حکومت مدرسےے کو نقصان نی پہنچاسکے۔ یہ کسی ایرےغیرے کاقول نہیں بلکہ مولانا حسین احمد مدنی کا ارشاد مباترک(؟)ہے [1] مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے بھی اس جانب اشارہ کیاہے، ا ور لکھا ہے کہ: ”اس حلقہ کی ایک جماعت پر مدرسہ کےمصالح مقدم تھے، دوسرے پر اسلام کےمصالح ۔ مولانا محمود حسن صاحب دل سے دوسری جماعت میں شریک تھے“[2] مرتب ”تحریک شیخ الہند“ مولانا محمد میاں صاحب نے بھی مصلحت کی بات کہی ہے جیساکہ سابقہ سطور میں موصوف سے نقل کیاجاچکاہے۔ آپ نے دیکھا ! جب اپنی بات آئی تو حکمت ومصلحت کی بیساکھی لگادی گئی، مولانا
[1] نقش حیات (۲/۱۴۴)، مولف نقش حیات مولانا سندھی صاحب کے دارالعلوم دیوبند سے علیحدگی پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :”واقعہ یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے ارباب اہتمام کے سامنے دارالعلوم کی بقاء سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ ۱۸۵۷ء کے واقعات اورا س کے بعد انگریز کی پالیسی ان کے سامنے تھی، انہوں نے مولانا عبیداللہ سندھی کی سرگرمیوں کونہ صرف دارالعلوم دیوبند بلکہ عام مسلمانوں کے لیے بھی خطرناک تصور کیا، ا ور اپنےخیالات کےمطابق ضروری سمجھا کہ مولانا سندھی کا تعلق اس مرکز سے نہ رہے ۔ اسی زمانے میں اتفاق سے چند علمی مسئلوں میں مولانا سندھی اور دارالعلوم کے دوسرے علماء کے درمیان اختلاف پیدا کرادیاگیا (؟) اسی اختلاف کی وجہ قرار دے کر مولانا سندھی کو دارالعلوم سے علیحدہ کردیا گیا“۔ مؤلف نقش حیات ہی کی زبانی یہ نقل کیاجاچکا ہے کہ مولانا عبیداللہ سندھی کی سیاسی سرگرمیاں ہی دارالعلوم سے ان کے اخراج کا سبب بنیں، اور اس اخراج کا صلہ بھی اس وقت کے مہتمم صاحب کو حکومت وقت کی طرف سے دیاگیا تھا۔ حافظ صلاح الدین یوسف اس توجیہ کوذکر کرنے کےبعد لکھتے ہیں : لیکن یہ توجیہ واقعات کےمطابق نہیں، واقعہ یہی ہے کہ اکابر دیوبند کی اکثریت تعلیم وتدریس سے منسلک رہی ہے، ا ور انگریز کےخلاف سرگرم جماعتوں اور گروہوں سے اس نے کوئی تعلق نہیں رکھا“ تحریک جہاد : اہلحدیث اور احناف (ص ۷۵۔ ۷۶) [2] یادرفتگاں :۳۸۹