کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 73
کہ مالیخولیاسے زیادہ اس قسم کی افواہوں کی کوئی قیمت نہیں کہ غدر کے ہنگامے کے برپا کرانے میں دوسروں کے ساتھ سیدنا الامام الکبیر اور آپ کے علمی ودینی رفقاء کے بھی ہاتھ تھے۔ بلکہ واقعہ وہی ہے جومصنف امام نے لکھاہے کہ ” مولانا فسادوں سے کوسوں دور تھے“[1] انہی چند اقباسات پرا کتفا کیاجاتاہے ورنہ ان جیسے بیسیوں اقتباسات قارئین کی نذر کئے جاسکتے ہیں جن سے وہ خود اکابرین دیوبندکی ”انگریز دشمنی “کی حقیقت کابخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں، اوربآسانی فیصلہ کرسکتے ہیں کہ کون انگریز نوازتھا۔ [2] اگرعلماء دیوبند نے حالات وظروف کے پیش نظر غیر جانبداری، یا انگریز موافقت کا موقف اپنایا تواس موقف کی بنیاد پر ہمیں انہیں مطعون کرنے کا یاان کے اخلاص پر بٹہ لگانے کاحق نہیں پہنچتا، کیونکہ اس وقت کے حالات زیادہ سنگین تھے۔ لیکن تاریخ سازی کا سہارا لے کر تحریک جہاد یا تحریک آزادی کا سارا کریڈٹ علماء دیوبند خودے دینا اور اہلحدیثوں کو انگریز سامراجیت کی پیداوار قراردینا تاریخ کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔ یہاں غور کرنے کی ایک بات یہ بھی ہے کہ مرکز دیوبندیت بتمامہ وکمالہ انگریز نوازی کی پالیسی اختیار کئے ہوئےتھی، اس کے باوجود تحریک آزادی کا سہرا علماء دیوبندہی کے گلے میں ڈالا جارہاہے۔ جبکہ نواب صدیق حسن خاں، مولانا بٹالوی ؒ وغیرہ چندا فراد کی انفرادی طور پر انگریز حکومت کی ظاہری اور وقتی حمایت کوبنیاد بناکر پوری جماعت اہلحدیث کو انگریزوں کا ہم نوا، پٹھو اور ان کا پروردہ قرار دیاجارہاہے۔ یہی نہیں بلکہ انگریزوں کواہلحدیثوں کاخالق بھی کہاجارہاہے۔ جرأت علی اللہ شاہد ہی ایسی کوئی نظیر ملاحظہ فرمانے کےلیے آپ کو نصیب ہو۔ شاید قارئین کویاد ہو پچھلے صفحات میں یہ بات گزرچکی ہے کہ صدق وصفا والی یہ
[1] حوالہ مذکور(۲/۱۰۹) [2] اس سلسلے میں مزیدحقائق مطلوب ہوں تو”تحریک جہاد: اہلحدیث اوراحناف “ مولفہ حافظ صلاح الدین یوسف علماء دیوبند اور انگریز“ جمع ترتیب توحیدی کا مطالعہ مفید ہوگا