کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 72
تھے۔ ا س کا شکوہ ایک مکتوب میں بھی کیاگیاہے جو تحریک کے ایک رکن نے مولانا محمودالحسن کے نام تحریر کیاتھا:
”مالکان مدرسہ سرکار کی خدمت میں لگئے ہوئے ہیں، نمائش کے دربار میں شرکت کا فخر بھی نصیب ہونے لگا“ [1]
مولانامناظر احسن گیلانی نے اپنی کتاب ”سوانح قاسمی“ میں صاف لفظوں میں اعتراف کیا ہے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مولانا قاسم نانوتوی اور ان کے دینی وعلمی رفقاء کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ ا نہوں نے اس مسئلے پر بڑی تفصیل سے بحث کی ہے، ان کاایک اقتباس ملاحظہ ہو:
۷۔ ”آج کل فضل وکمال، بڑائی وبزرگی کاسب سے بڑا معیار یہ ٹھہرایا گیاہے کہ سیاسی کاروبار میں سب سے زیادہ نمایاں حصہ جس نے لیا، وہی سب سے بڑا آدمی ہے۔ اور دوسرے میدانو ں میں خواہ کچھ بھی حال ہو۔ کسی مقام کا مالک ہو لیکن سیاست کے میدان کا جواپنے آپ کوکھلاڑی ثابت نہ کرسکا وہ کچھ نہیں ہے۔ اسی عام سطحی معیار کو دیکھ کر بے دھڑک یہ مان لینا کہ غدر کےہنگامے میں سیدنا الامام الکبیر (مولاناناتوی )نے تواسی طرح حصہ لیاتھا جیسے اس ملک کے عام باشندے اس کی آگ میں خود پڑے تھے۔ سیدنا الامام الکبیرکی شان ہی کے مطابق اس قسم کا عاجلانہ فیصلہ درست ہوسکتاہےا ور نہ واقعات ہی سے اس کی تائید ہوتی ہے “ [2]
ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں :
”اتنی بات بہرحال یقینی ہے اور ان ناقابل انکار چشم دید گواہوں کا کھلا اقتضاء ہے
[1] تحریک شیخ الہند(ص۲۶۹) مرتب ا سپرحاشیہ آرائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں :”دارالعلوم جوانہیں حضرات کے بزرگوں کی ساٹھ سالہ امانت تھی، ا س کی مصلحت کا تقاضایہی تھا۔ یہ مصلحت خود حضرت شیخ الہند کے پیش نظر تھی، چنانچہ آپ سرحدی آزاد قبائل میں تشریف نہیں لےگئے، ا ور اس علاقے کے بجائے مدینہ منورہ تشریف لےگئے “۔ گویا مصلحت پر انہی کی اجارہ داری ہے؟
[2] سوانح قاسمی ۲/۸۹