کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 71
تواس نے ان الفاظ میں آکر رپورٹ دی کہ : ” یہ مدرسہ خلاف سرکار نہیں بلکہ موافق سرکار وممدومعاون سرکار ہے۔ یہاں کے تعلیم یافتہ لوگ ایسے آزاد اور نیک چلن ہیں کہ ایک کو دوسرے سے کچھ واسطہ نہیں “۔ [1]
اس حقیقت کی تائید انگریز مؤرخ ڈبلیو ولیم ہنٹر کی کتاب ”ہمارے ہندوستانی مسلمان “سے بھی ہوتی ہے۔ اس کتاب کا خاص موضوع ہی یہ تھاکہ ان افراد اور جماعتوں کی نشاندہی کی جائے جوانگریز حکومت کی مخالف ہیں اور انگریزی حکومت سے جہاد کوضروری سمجھتی ہیں۔ ا س ضمن میں ہنٹر بار باروہابی علماء اہل صادق پوراوران کے ہم نواؤں کوانگریزی حکومت کا دشمن لکھتا ہےا ور مختلف انداز سے ان کا تذکرہ کرتاہے۔ لیکن اس انگریز مبصر نے کہیں بھی اکابر دیوبند کا ذکر نہیں کیاہے۔ اگر انہوں نے کسی بھی درجے میں انگریز کی مخالفت کی ہوتی اور تحریک جہاد سے تعاون کیا ہوتا تویہ ناممکن تھا کہ ہنٹر کی کتاب ان کے ذکر سے خالی رہتی، ا ور اس کی نظر سے اکابر دیوبند کا کردار مخفی رہ جاتا۔ علاوہ ازیں مولانا محمد میاں مصنف ” علماء ہند کاشاندار ماضی “ باوجودیکہ انہوں نے علماء دیوبند کی تاریخ کوخوب رنگ وروغن لگا کر پیش کی ہے، یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئےہیں :
”اس موقع پر تاریخ کے ایک طالب علم کی حیرانی ناقابل بیان ہوجاتی ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ صفحات تاریخ پر مالا گڈہ اور فرخ نگرجیسے گمنام مقامات کے نام موجودہیں لیکن اس علاقے ( یعنی مظفر نگر وسہارنپور جس میں دیوبند واقع ہے) اورا س کے مجاہدین کا کوئی تذکرہ نہیں “ [2]
یہ وہ حقیقت ہے جس کا اظہار بے ساختہ ان کی زبان قلم سے ہوگیا ہے۔
۶۔ بعض علماء دیوبند کی تحریک استخلاص وطن میں شمولیت کے بعد بھی دیگر اکابردیوبند تحریک سے یکسر مختلف راستے پر یعنی انگریزی حکومت کی وفاداری کی پالیسی پر گامزن
[1] مولانا محمد احسن نانوتوی (ص۲۱۷)
[2] علماء ہند کا شاندار ماضی (۴/۲۴۹)