کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 70
۱۸۴۶ء میں آپ نے حج کے لیے ایک سال کی رخصت لی، سرکار نے ازراہ قدردانی نصف سال کی تنخواہ پیشگی عنایت فرمادی “ [1] مولانا مملوک علی صاحب نے اس سرکاری ملازمت کے فوائد کواپنی ذات تک ہی محدود نہیں رکھا، بلکہ اپنے عزیزواقارب اور اپنے اطراف کے لوگوں کے لیے بھی استفادہ کاپورا پورا موقع فراہم کیاجس کا اعتراف مولانا مناطر احسن گیلانی سے سوانح قاسمی کیاہے۔ [2] اکابرین دیوبندکی اسی وابستگی کے پیش نظر مولانا عبیداللہ سندھی دارالعلوم دیوبند خودہلی کالج کاہی ایک حصہ قرار دیتے ہیں : ”۱۸۵۸میں اس جماعت (دیوبندی) کی مرکزی قوت میں سلطان دہلی کی طرف داری اور غیر جانبداری کی بناء پر ایک اختلاف رونماہوا، اور یہ جماعت دوحصوں میں تقسیم ہوگئی۔ بعد میں اس جماعت کے دہلی کے ایک مرکز کی بجائے دیوبند اور علی گڑھ دومرکز بن گئے، مولانا محمد قاسم دہلی کالج کے عربی حصے کودیوبندلےگئے، ا ور سرسید احمد خان نے کالج کے انگریزی حصے کوعلی گڑھ پہنچادیا“ [3] ۵۔ اس وابستگی کی وجہ سے حکومت مخالف سرگرمیوں میں حصہ لینے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، اور یہی حقیقت بھی ہے۔ قیام مدرسہ کے چند سال بعد۳۱/جنوری ۱۸۷۵ء کو لفٹیننٹ گورنر نے اپنےخاص معتمد آدمی مسٹر پامر خودارالعلوم دیوبند کے معائنہ کےلیے بھیجا
[1] مولانا محمد احسن نانوتوی (ص۱۷۰۔ ۱۷۲) [2] (۱/۲۱۰) [3] شاہ ولی اللہ اوران کی سیاسی تحریک (ص۱۱۲) مولاناسندھی کےا س قول کوذکر کرنے کے بعد مولانا عبدالخالق قدوسی فرماتے ہیں :” ہم مانتے ہیں کہ ۱۸۵۷ء کےبعد اس جماعت کے ایک کی جگہ دومرکزبن گئے اور یوں یہ جماعت دو حصوں میں منقسم ہوگئی۔ لیکن جہاں تک سلطان دہلی کی حمایت یا عدم حمایت کا تعلق ہے، تاریخ اس سلسلے میں مولانا کا ساتھ دینے سے قاصر ہے بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ۱۸۵۷ء کی ملکی لڑائی میں علماء دیوبند نے مولانا مملوک علی کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے من حیث الجماعت انگریز کا ساتھ دیاتھا۔ اسلاف دیوبند اور انگریز حکومت (مطبوع درضمن علماء دیوبند اور انگریز ص ۲۳)