کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 69
وہاں یہی واقعہ گورنمنٹ انگریزی سے آپ کی کامل وفاداری کا واضح ثبوت بھی ہے “۔ [1] ۴۔ آئیے ذرا اکابرین دیوبند کی انگریزی حکومت سے وابستگی کے بارے میں بھی بعض اقتباسات ملاحظہ فرمالیجیے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بیشتر اکابرین دیوبند انگریزی حکومت کی طرف سے مختلف شہروں میں محکمہ تعلیمات کے مختلف عہدوں پر فائز تھے یا پھر دہلی گورنمنٹ کالج میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ چنانچہ مولانا قاری محمد طیب رقم طرزا ہیں : ”۔ ۔ ۔ مدرسہ دیوبند کے ارکان میں اکثریت ایسے بزرگوں کی تھی جو گورنمنٹ کے قدیم ملازم اور حال پنشزتھے، جن کے بارے میں گورنمنٹ کوشک وشبہ کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہ تھی۔ “ [2] مولانااحسن نانوتوی کے سوانح نگار ایوب قادری لکھتے ہیں : ”مولانا احسن، مولوی مظہر (مظاہر علوم والے )ا ور مولوی محمد منیر توبنارس کالج، آگرہ کالج اور دہلی کالج میں ملازم ہوئے، ا ور مولوی ذو الفقار علی (والد شیخ الہند) مولوی فضل الرحمٰن ( والد مولانا شبیرا حمد عثمانی ) مولوی یعقوب علی نانوتوی (صدر مدرس دیوبند) محکمہ تعلیم میں ڈپٹی ا نسپکٹر رہے۔ [3] ان تمام لوگوں میں سرفہرست مولانا مملوک علی ہیں، دہلی کے سرکاری کالج میں مدرس تھے، آپ کی حسن کارکردگی سے متأثر ہوکر دہلی کالج کے وزیٹر مسٹر ٹامسن کی سفارش پر ۸/نومبر ۱۸۴۱ء کوآپ صدر مدرس قرار پائے، کالج کے تمام پرنسپلوں کے معتمد رہے، ہر سالانہ رپورٹ پر ان کی تعریف وتوصیف کی گئی، ایک موقع پر گورنر جنرل بہادرنے دہلی میں درنار کیا، ۱۷/نومبر کے دربار میں ۲۷/افراد کوانعام واکرام سے نوازا گیا، مولانا مملوک علی کوخلعت سہ پارچہ مرحمت ہوا، دہلی کالج کی نصابی کتابوں کاکام آپ کی زیر نگرانی ہوتا،
[1] سلاف دیوبند اور انگریزی حکومت تاریخی حقائق کے آئینہ میں (مطبوع درضمن علماء دیوبند اور انگریز ص ۲۳۔ ۲۴) [2] سوانح قاسمی (۲/۲۴۷) [3] احسن نانوتوی (ص۲۶)