کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 66
خودبخود فرمانے لگے کہ سائیس جس سے میں نے گفتگو کی یہ خضر تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیاحال ہے ؟ تو جواب میں کہا کہ حکم یہی ہواہے “ [1] ۲۔ تذکرۃ الرشید کے مؤلف مولاناعاشق الہی تحریرفرماتے ہیں: ”ایک مرتبہ ایسا بھی ہوا ہے کہ حضرت امام ربانی اپنے رفیق جانی مولانا قاسم العلوم اورطبیب روحانی اعلی حضرت حاجی صاحب ونیز ضامن صاحب ہمراہ تھے، کہ بندوقچیوں سے مقابلہ ہوگیا۔ یہ نبردآزمادلیر جتھہ اپنی سرکار کےمخالف باغیوں کے سامنے سے بھاگنے یاہٹ جانے والانہ تھا، ا س لیے اٹل پہاڑ کی طرح پیر جماکر ڈٹ گیا۔ اور سرکار پر جاں نثاری کے لیے طیار (کذا) ہوگیا۔ اللہ رے شجاعت وجوانمردی!کہ جس ہولناک منظرسے شیرکاپتہ پانی، ا ور بہادر سے بہادر کازہرہ آب ہوجائے، وہاں چند فقیر ہاتھوں میں تلوار لیے جم غفیر بندوقچیوں کے سامنے ایسے جمے رہے گے گویا زمین نے پاؤں پکڑ لیے ہیں۔ چنانچہ آپ پرفیریں ہوئیں اور حضرت ضامن صاحب رحمۃ اللہ علیہ زیر ناف گولی کھاکر شہید ہوئے“۔ یہ ہےعلماء دیوبند کی انگریز دشمنی کی عظیم مثال! شاید ہی اہلحدیثوں کی پوری تاریخ میں انگریز نوازی کی ایسی کوئی مثال موجود ہو۔ یہی نہیں بلکہ اس لڑائی میں بعض محیر العقول واقعات بھی رونما ہوئے اور نقصان نہ ہونے کےبرابر رہا۔ کرامات میں سے ایک کرامت یہ ظاہر ہوئی کہ ایک گولی مولانانانوتوی کےدماغ کوچیرتی ہوئی نکل گئی، تمام کپڑے خون سے ترہوگئے، لیکن زخم کا نام ونشان تک نہ تھا، حضرت مولانا قاسم العلوم ایک مرتبہ یکایک سر پکڑ کر بیٹھ گئے جس نے دیکھا جانا کہ کنپٹی میں گولی لگی اور دماغ پارکرکے نکل گئی۔ اعلیٰ حضرت نے لپک کر زخم پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: کیاہوا؟ میاں ! عمامہ اتار کر سر کو جودیکھا کہیں گولی کا نشان تک نہ ملا، اور تعجب یہ ہے کہ خون سے تمام کپڑے تر“[2]
[1] سوانح قاسمی (۲/۱۰۳حاشیہ ) انگریز فوج میں خضر علیہ السلام کی موجودگی کی خبر دینے والے کس حدتک انگریز کےدشمن ہوسکتےتھے، اس کا اندازہ آپ بخوبی لگاسکتے ہیں۔ [2] تذکرۃ الرشید۱/۷۴، ۷۵، ملاحظہ ہویہ عظیم کرامت جوصحابہ کرام بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کرامات پر بھی فوقیت رکھتی