کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 65
قدم ہے یاغیرمستحسن، اور جماعت اہل حدیث اس کو مفید سمجھ رہی ہے یا غیر مقلد [1]، لیکن اپنی جگہ پر یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ مؤلف ”الدیوبندیۃ‘‘ نے اپنی جانب سےزیادہ کچھ کہنے کے بجائے خالص دیوبندی مصادر پر مکمل اعتماد کیا ہے۔ لہذا الدیوبندیۃ میں پیش کردہ معلومات کی تکذیب خود اپنے مصادر ومآخذ کی تکذیب ہے، لیکن یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ ”الدیوبندیۃ“ کےحوالہ جات کی صحت وعدم صحت پر سلسلہ جنبانی کرنے کے بجائے مؤلف الدیوبندیۃ کی تکذیب فرمائی گئی ہے، ا ور ان کو الزام تراشی اور بہتان تراشی وغیرہ سے متصف کیاگیاہے۔ 1۔ مولانا مناطر احسن گیلانی سے قارئین بخوبی واقف ہوں گے کہ یہ سوانح قاسمی کے مؤلف ہیں، لکھتے ہیں : ”انگریزوں کے مقابلے میں جو لوگ لڑرہے تھے ان میں حضرت مولانا شاہ فضل الرحمٰن گنج مرادآبادی رحمہ اللہ بھی تھے۔ اچانک ایک دن مولانا کو دیکھاگیا کہ خود بھاگے جارہے ہیں اور کسی چوہدری کا نام لے کر جوباغیوں کی فوج کی افسری کررہےتھے، کہتے جاتےتھے کہ لڑنے کا کیافائدہ ؟ خضر کوتومیں انگریزوں کی صف میں پارہاہوں “۔ مولانا مزید لکھتے ہیں : ”غدر کے بعد جب گنج مراد آبادی کی ویران مسجد میں حضرت مولانا (شاید محمد قاسم نانوتوی ) جاکر مقیم ہوئے تواتفاقاً اسی راستے سے جس کنارے مسجد ہے کسی وجہ سے انگریزی فوج گزررہی تھی۔ مولانا مسجد سے دیکھ رہےتھے۔ ا چانک مسجد کی سیڑھیوں سے اتر کردیکھاگیا کہ انگریز ی فوج کے ایک سائیس سے جوباگ ڈور کھونٹے وغیرہ گھوڑے کا لیے ہوئے تھا، اس سے باتیں کرکے پھر مسجد آگئے۔ اب یاد نہیں [2]رہا کہ پوچھنے پر یا
[1] اس ضمن میں ظن وتخمین کی بنیاد پر بہت اہم اہم فیصلے کیے گئے ہیں، حتی کہ اس کے مؤلف کی تعیین وتحدید میں بھی قیاس آرائی سے کام لیاگیا ہے حالانکہ اس عمل سے ( جہاں تک میں نے جانا اور سمجھاہے) جماعت کاکوئی تعلق نہیں ہے، ا ور نہ ہی کسی پرچے میں اس کوسراہاگیاہے ۔ یہ محض دوافراد کا عمل ہے جوجماعت اہل حدیث سےمنسلک ہیں اور بس۔ [2] قائل نواب صدر یا جنگ مولانا حبیب الرحمٰن خان شیروانی ہیں کیونکہ وہی دونوں حکایات کے راوی ہیں۔