کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 63
گیاتھا او ر مہتمم صاحب کو شمس العلماء کا خطاب ملاتھا“ [1]
اہل دیوبند کی سیاست سے لاتعلقی کی مزید وضاحت ملاحظہ ہو :
”دیوبند کا مدرسہ شمس العلماء حافظ محمد احمد پسر مولانا محمد قاسم بانی مدرسہ کےمحتاط انتظام میں ماضی کے بہت سے برسوں سے سیاست سے بالکل پاک وصاف رہاتھا، اورا س کے مدرسوں اور معلموں نے جدید سیاست یا امور خارجہ میں نہایت خفیف دلچسپی لی تھی یا مطلق دلچسپی نہ لی تھی، عبیداللہ کی آمد سے اورا س کے اثر سے مدرسے کا رنگ بدلنا شروع ہوگیا۔ [2]
مذکورہ بالااقتباسات سے پوری طرح یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اہل دیوبند کی سیاسی تحریک میں دلچسپی مولانا عبیداللہ سندھی کے زمانہ تدریس سے شروع ہوتی ہے، اور اسی سیاسی تگ ودو کی بناء پر مولانا کادارالعلوم دیوبند سے اخراج ہوجاتاہے ۔ لیکن انہوں نے مولانا محمود الحسن صاحب کو اپنا ہم نوا بنالیاتھا۔ یہاں ایک بات قابل غور ہے، وہ یہ کہ جس سیاسی تحریک کامولانا کے عہد سے آغاز ہواتھا وہ کس کی نوعیت کی تھی؟ حقیقتاً اس تحریک کا مقصد خالص اسلامی حکومت کاقیام نہیں تھا، بلکہ اس کا مقصد امگریزی حکومت کی بجائے ایک قومی حکومت کا قیام تھا، جس کی بنیاد محض وطن پرستی پر قائم تھی [3]اس سلسلے میں تفصیل
[1] نقش حیات ۲/۲۴حاشیہ
[2] تحریک شیخ الہند ص ۱۹۳ (الجمعیۃ بک ڈپو دہلی)
[3] مولانا حسیبن احمد مدنی نے ۹/جنوری ۱۹۳۸ء کو باڑہ ہند دہلی کی تقریر میں کہاتھا”موجودہ زمانے میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں اس لیے مسلمانوں کو لازم ہے کہ وہ ہندؤوں کے ساتھ مل کر متحدہ قومیت بنالیں “۔ یعنی مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد دین اسلام نہیں بلکہ وطن ہے۔ علامہ اقبال کوجب یہ معلوم ہوا تو نہایت ہی رنجیدہ وغمزدہ لہجہ میں انہوں نے مندرجہ ذیل اشعار کہے جن کے بعض مصرعے زبان زد عوام ہیں :
عجم ہنوز نداندرموز دیں ورنہ زدیوبندحسین احمد ایں چہ بوالحجی است
سرودبرسرمنبرکہ ملت از وطن است چہ بےخبر ز مقام محمدعربی است
ازمصطفیٰ برسان خویش راکہ دیں ہمہ است اگربہ نرسیدی تمام بولہی است