کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 62
اہل حدیثوں نے فروعی اختلافات سے بالاتر ہوکر شانہ بشانہ کام کیاہے [1] لیکن بعد میں احناف نےا س تحریک سے بالکل عليحدگی اختیار کرلی تھی، اور جب ۱۹۶۷ء میں دارالعلوم دیوبند کاقیام عمل میں آیا تواکابرین دیوبند کا سوائے تعلیم وتعلم کے کسی دوسری چیز سے کوئی تعلق اور شغف نہیں رہاتھا حتی کہ تحریک استخلاص وطن ( یعنی تحریک آزادی وطن ) سے بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ انگریز دشمنی مولانا عبیداللہ سندھی کے دارالعلوم دیوبند سے منسلک ہونے کے بعد شروع ہوتی ہے۔ اس کی تائید “تحریک شیخ الہند“ کے درج ذیل دستاویزات سے ہوتی ہے : ”مدرسہ دارالعلوم دیوبند میں سرکشی کاآغاز عبیداللہ سے ہوتاہے۔ یہ شخص نومسلم سکھ۔ ا س نے ۱۸۸۱ء ۔ ۱۸۸۹ کے درمیان مدرسےمیں تعلیم پائی۔ ۱۹۰۹ء میں استاذ بن کرمدرسے میں غداری کے جذبات پیدا کرنے کے ادارے سے شامل ہوا۔ ۱۹۱۳ء میں غیر ملکی مال کا بائیکاٹ کرنے تلقین پر اس کو برطرف کردیاگیا۔ لیکن اس دوران اس نے صدر مدرس محمود حسن کواپنا ہم عقیدہ بنالیا“ [2] مولاناحسین احمد مدنی نے بھی تسلیم کیاہے مولانا عبیداللہ سندھی کا مدرسہ دیوبند سے اخراج کا“اصل سبب وہ امر ہے جس کی بناء پر مسٹن گورنر یوپی بند ودارالعلوم میں
[1] چنانچہ مولانا عبیداللہ سندھی کےا س نظریہ کہ”سید شہید کی تحریک ناکامی کاسبب یہ ظاہر ہوتاہے کہ اس میں شوکانیت اوروہابیت یاصریح لفظ میں کہے کہ غیرمقلدیت کی آمیزش ہوگئی تھی “کی سخت تردید کرتے ہوئے مولانا سید سلیمان ندوی فرماتے ہیں : ”اس تحریک کے علمبرداروں میں فقہی جنگ وجدان یاآمین اور رفع یدین کے ذریعہ ردبدعت یا اتباع سنت کاخیال کبھی راہ نہیں پایا، سید شہید، مولانا شہید اور دوسرے وابستگان دامن کی تحریر وتقریر ومناظراور خطوط ومکاتیب وغیرہ موجود ہیں ان سے استناد کرنا چاہیے، تحریک کا مقصود عقائد کی صحیح اصلاح، ا عمال کی اصلاح، توحید کی اشاعت، باطل کا رد، سوم فاسدہ کا ازالہ اور احکام اسلامی کا اجراء تھا، باقی حکایات وروایات آحاد اس باب میں سند کے قابل نہیں۔ ۔ ۔ ۔ البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ اس تحریک نے اتباع سنت کو جوجذبہ پیدا کردیاتھااس کے اثر سے کچھ لوگوں کوموجودہ کتب احادیث کے دفتر میں جوچیز اول وہلہ میں سنت ثابت ہوتی نظر آئی ہے ا س کے قبول کرلینے میں کوئی تقلیدی خیال ان کو باز نہ رکھ سکا“ ماہنامہ معارف اعظم گڈھ فروری ۱۹۴۳ء(ص۹۹) [2] تحریک شیخ الہند ص ۱۴۸ (الجمیہ بک ڈپو دہلی)