کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 57
یرقان زدہ شخص کی طرح جس کو ہر چیز زرد نظر آتی ہے ان کرم فرماحضرات کو بھی یہی نظر آتا ہے کہ ہم بھی اپنے علماء کے مقلد ہیں یایہ کہ ہماری نظر میں علماء معصوم ہیں۔ کتاب وسنت پر دعوی عمل کے بعد ان سے غلطی کا صدور ممکن نہیں۔ ائمہ اربعہ جن کی تقلید کوآج فرض کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے اگر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری جن آراء کوکتاب وسنت سے تم متصادم پاؤ انہیں چھوڑدو، دیوار پر دے مارو تومتأخرین علماء کے یہاں اس کا امکان بدرجہ اولی ہوسکتاہے کہ دعوی عمل بالکتاب والسنۃ کے باوجود ایسے بعض اقوال وفتاوی پائے جائیں جو کتاب وسنت کےمخالف ہوں۔ ا س سے ان کے دعوی بالکتاب والسنۃ پر کوئی آنچ نہیں آسکتی جس طرح ائمہ کے عمل بالکتاب والسنۃ پر کوئی آنچ نہیں آئی۔ میں عرض کررہاتھا کہ ڈاکٹر بوطی صاحب اور برصغیر کی ایک مخصوص جماعت کے مابین سلفیت یا عدم تقلید کے رد میں کئی امور میں مشابہت پائی جاتی ہے، ذیل میں انہیں بعض امورکی طرف اشارہ کیاجاتاہے : الف۔ ڈاکٹر بوطی صاحب نے جس طرح عظیم معانی ومفاہیم پر مشتمل لفظ ”سلف“ اور “سلفیت“کےا ستعمال پر اپنی ناگواری وناراضگی کا اظہار فرمایا ہے اسی طرح ہندوستان میں سواداعظمیت کی دعویدار ایک مخصوص جماعت نے بھی اہل حدیث، اہل الأثر، محمدی، موحد جیسے بابرکت اور عظیم القاب کے انتخاب کواپنے غیظ وغضب کانشانہ بنایاہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اپنے آپ کو حنفیت ودیوبندیت جیسے معنویت سے عاری القاب میں محصور کرلینے پر ان کو سخت ندامت اور خفت محسوس ہورہی ہے، اس کا برملا اظہار کرنے کی اپنے اندر ہمت وجرأت نہ پانے کی وجہ مختلف اسالیب اور پیرایوں میں ان عظیم القاب کے انتخاب ہی پر برسنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی جھلاہٹ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ وہ ”سلفیت “کوبطور نسبت اختیار کرنےو الوں کو قادیانیوں کے ساتھ مل بیٹھنے کی تلقین کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، اس لیے وہ اپنے آپ کو (احمدی) کہتے ہیں۔ [1]
[1] سابقہ سطور میں تھوڑی سی گفتگو اس تعلق سے گزرچکی ہے۔