کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 55
گرانقدر کتاب ”تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ دہلوی کے تجدیدی کارنامے“ جو ایک مخصوص طبقے کےلیے حلق کانٹا بنی ہوئی ہے کے مؤلف ”مولانا محمد اسماعیل گوجرانوالہ “جن کی وفات پچا س سالہ مجاہدانہ زندگی گزارنے کے بعد ۱۹۶۸ء میں ہوئی، سلفی نسبت رکھتے تھے۔ کیا ان کے بارے میں بھی یہ کہاجاسکتاہے کہ انہوں نے پٹروڈالر کی چمک دمک سے متاثر ہوکر سلفیت کا لبادہ ا وڑھ رکھاتھا؟ اگر اللہ تعالیٰ نے گویائی اور قلم کی طاقت دی ہے تو اس طرح کی ہرزہ سرائی کرکے اس نعمت کا شکرا دا نہیں کیاجاسکتا۔ اسی طرح مولانا عبدالحق محدث بنارسی رحمہ اللہ علیہ (ف۱۲۸۶ھ) جوآج تک ایک مخصوص حلقے کی جانب سے مسلسل ناوک افگنی کا نشانہ بنتے چلے آرہے ہیں، بقول مولانامسعود عالم ندوی رحمہ اللہ علیہ ایک ”متبع سنت سلفی عالم“ تھے۔ [1] میں یہ عرض کررہاتھا کہ ابھی تو برصغیر کے اہل حدیث ہی مہتمم تھے اپنی سلفیت میں، اب تمام وہابیوں کی سلفیت ( جس کو بجا طور پرا س زمانے میں سلفیت کا علمبردار سمجھاجاتا ہے) کوبھی اتہام کے کٹہرے میں کھڑا کردیا گیا۔ باقی بچے وہ حضرات جوبغض وحسد، نفرت وکینہ کے باوجود اہل حدیث وسلفی علماء کے پاس مختلف مقاسد کے تحت توصیہ وتزکیہ لینے آتے ہیں اور ان میں سے بیشتر حضرات توصیہ حاصل کرکے اور سلفی بن کر سعودی جامعات میں داخلہ لیتے ہیں یا تعاقد کراکرسلفیت کےخلاف دعوت وتبلیغ کےنام پر محاذ کھڑ اکرتے ہیں۔ ایک نہیں اس کی دسیوں مثالیں دی جاسکتی ہیں اوراس زمرے میں خود غیر مقلدین کی ڈائری تیار کرنے والے حضرات بھی شامل ہیں۔ دوسروں کونفاق، یاپٹروڈالر کی چمک دمک سے متاثر ہونے کا اتہام لگانے سے قبل اپنے گریبان میں منہ ڈال کر اپنے اخلاص وتقوی کا بھی جائز ہ لینا چاہئے، جومحض زبان کی درازی یا جبہ ودستار کی سفیدی
[1] = صدیقی (۱۳۳۲ھ (ص۳۶) میں آپ کےحالات زندگی میں مذکور ہیں، مذکورہ کتاب ( نغمہ دل ) جناب سلام اللہ صدیقی، بنارس کے یہاں محفوظ ہے، مذکورہ بالاتفصیلات مولانا محمد یونس مدنی استاذ جامعہ سلفیہ بنارس کے بیاض سے ماخوذ ہیں۔  مولانا عبیداللہ سندھی اور ان کے افکار وخیالات پر ایک نظر (ص ۷۶)