کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 54
تومولانا عبدالعزیز رحیم آبادی رحمہ اللہ علیہ نے اسے دربھنگہ منتقل کرکے مدرسہ سلفیہ میں ضم کردیا اور اس کا نام ( ادرالعلوم احمدیہ سلفیہ) دربھنگہ رکھا۔ [1]
سلفیہ کےاضافے کاسبب احمدیوں (مرزائیوں ) سے اشتباہ کو دور کرنا تھا، اسی طرح مطبع سلفی دربھنگہ کے نام سے ڈاکٹر سید محمدفرید رحمہ اللہ نے ۱۹۳۳ء میں ایک پریس قائم کیاتھا جس میں دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ کا ترجمان ماہنامہ مجلہ سلفیہ شائع ہوتاتھا۔ [2] جوایک عرصہ تک جاری رہا اور بعد میں (اخبار الہدی) ہفت روزہ میں تبدیل ہوگیا۔
عربی زبان کے نامور ادیب مولانا عبدالعزیز میمنی رحمہ اللہ جنہوں نے تقریباً ۹۰ سال کی عمر میں ۱۹۷۸ ء میں وفات پائی اپنی نسبت میں ”سلفی اثری“ لکھا کرتے تھے، جیساکہ آپ کی مختلف تالیفات اور تحقیقات کے سرورق اور تمہیدی کلمات کےاخیر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ واضح ہوکہ ان میں بعض کی طباعت ۱۳۴۲ھ، ۱۳۴۳ھ اور ۱۳۴۵ھ میں عمل میں آئی ہے جبکہ آپ کی اپنی تحریرات کی تاریخ اس سے ماقبل کی ہے۔ [3]کیااس بےلوث کے بارے میں کہاجاسکتا ہے کہ اس نے سلفی نسبت کسی مقصد کےحصول کی خاطر اختیار کی تھی۔
شہر بنارس میں مقیم ریاست ٹونک کے زبردست عالم صاحب علم وفضل مولانا عبدالکریم تھے جواپنے لیے ”سلفی” نسبت اختیار کیے ہوئے تھے، سید احمد شہید کے تربیت یافتہ اور اسماعیل شہید (رحمہم اللہ ) کے شاگرد تھے۔
۱۸۴۰ء میں بنارس آئے، ۱۸۵۷ء میں بنارس میں رہنا دوبھر ہوگیا تو گجرات چلے گئے، بعض لوگوں کے کہنے کے مطابق بنارس ہی میں ۱۲۸۶ء میں انتقال کیا، آپ اہل حدیث تھے، فن نحو پر آپ نے ایک کتاب لکھی ہے۔ [4]
[1] تحریک اہل حدیث تاریخ کے آئینے میں (ص ۴۹۶)
[2] أیضاً (ص۵۵۱)
[3] بطورمثال ملاحظہ ہو: رسالة الملائکة، فأئت شدعر ابی العلاء، ابن رشیق
[4] رسالہ سہیل بنارس جون ۱۸۸۸ء کےحوالے سے وفیات الاعلام کےحاشیہ نغمہ دل مؤلفہ صوفی عبداللہ بن محمد بن زاہد =