کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 53
محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ اور ان کے اتباع سے بڑھ کر کو ن بعد کے دور میں علماء سلف کے طریق کار، ان کے اصول ومبادی اور ان کے عقائد ونظریات کی حمایت وحفاظت کادعویدار ہوسکتاہے ؟ اگر انہوں نے اس کا دعوی کیاتو بالکل بجا طور پر کیا بلکہ وہی اس کے حقیقی دعویدار ہیں۔ بعض غرض منداہل قلم برصغیر کے اہلحدیثوں کوجنہو ں نے علماء سلف کی اختیار کردہ مختلف نسبتوں سلفیت کو بھی بطور ایک نسبت اختیار کر رکھاہے نفاق سے مہتم کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہےکہ سعودیہ اور دیگر خلیجی ممالک کی دولت نے ان کی آنکھوں کو خیرہ کردیا ہےا، اسی دولت کےحصول کی غرض سےا نہوں نے سلفیت کا لبادہ اوڑھ لیاہے، ورنہ حقیقتاً وہ سلفی نہیں ہیں۔ [1]
شاید ان حضرات کو برصغیر کے اہلحدیثوں کی تاریخ معلوم نہیں ہے، یامعلوم ہے لیکن غلط پروپیگنڈوں کے ذریعہ لوگوں کو بدظن کرنا اور تاریخ کومسخ کرکے پیش کرنا مقصود ہے۔ ان کے علم کےلیے عرض ہے کہ ہندوستان کے اہلحدیثوں کا ابتداء ہی سے حکومت سعودیہ عربیہ سے تعلق رہاہے جومحض تعاون علی البر والتقوی کی بنیاد پر قائم تھا، ا ور اسی تعلق کی بناء پر انہوں نے ملک عبدالعزیز رحمہ اللہ کی حجاز پر قبضہ مکمل ہوجانے کے بعد مکمل تائید کا نہ صرف اعلان کیاتھا بلکہ مادی ومعنوی تقویت بھی بہم پہنچانے کی کوشش کی تھی ' جبکہ دوسرے حضرات ان کےخلاف پروپیگنڈوں میں مصروف تھے۔ دستاویزات کے ذریعہ اس کے ثبوت فراہم کیے جاسکتے ہیں۔ ابتداءً اس حکومت کے پاس دولت کی اتنی فراوانی نہیں تھی کہ کہاجاسکے کہ حصول دنیا کی خاطر انہوں نے ایسا کیاتھا۔ اس حکومت کےقیام کے وقت یا اس کے پہلے سے ہی سلفیت کے نام پر افراد کا، تعلیمی وغیر تعلیمی اداروں کا وجودرہاہے جبکہ پیٹرول ڈالر کی چمک دمک پر دہ خفا میں تھی، چنانچہ مدرسہ سلفیہ دربھنگہ کاقیام مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی رحمہ اللہ کے ہاتھوں ۱۳۳۶ھ مطابق ۱۹۱۸م میں عمل میں آیا تھا اور جب مدرسہ احمدیہ آرہ مولانا عبداللہ غازیپوری رحمہ اللہ علیہ کے دہلی چلے جانے کے بعد بے رونق ہوگیا
[1] ملاحظہ ہو: مسائل غیر مقلدین (۲۵)وقفۃ مع الامدھبیۃ (ص۳۰، ۲۹)