کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 52
جوجواب ان کا ہوگا وہی جواب ان شاء اللہ ہمارا بھی ہوگا۔ لفظ ”سلفیت“کے رواج پر بحث کرتے ہوئے بوطی صاحب رقم طراز ہیں : ”وہابی مذہب اور مصر میں اٹھنے والی دینی اصلاحی تحریک کی دعوت کے مابین ایک قدر مشترک تھی، دونوں ہی بدعات وخرافات خصوصاً متصوفانہ بکواس کے خلاف برسرپیکار تھے، اس لیے وہابی مذہب کے اساطین علماء کے مابین بھی لفظ سلف اور سلفیت کورواج حاصل ہوگیا“۔ آگے مزید لکھتے ہیں : ”تاکہ لوگوں کو یہ باور کراسکیں کہ اس مذہب کے افکار ونظریات محمد بن عبدالوہاب پر موقوف نہیں ہیں بلکہ سلف سے ماخوذ ہیں اور انہوں نے اس مذہب کواختیار کرکے سلف کے افکار ونظریات، ا ن کے عقائد، اسلام کے فہم اور اس کی تطبیق میں علماء کے منہج وطریق کار کی حفاظت ونگہداشت کی ہے “۔ [1] قارئین کرام ڈاکٹر بوطی صاحب ان کے چند اقتباسات سے جویہاں نقل کیے گئے بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ موصوف کوسلفیت کی تردید میں کتنے تقلبات اختیار کرنے پڑے، اور کتنے تقلبات اختیار کرنے پڑے، اور کتنے پینترے بدلنے پڑے ہیں۔ ابتداءً چند مشاہدات کوبنیاد بناکر ”سلفی“ کی غیرعادلانہ تعریف بیان کی، پھر سلفیت کےا صول ومبادی کوسراہتے ہوئے سلفیوں کوان پر جمے رہنے کی تلقین کی، ا ور پھر لفظ سلفیت کے استعمال پر اعتراض کیا، ا س کے بعد سلفیت کواستعمار سے مرطوب کرنے کی کوشش کی۔ ا ور جب یہ احساس ہوا کہ سلفیت کا وجود استعمار سے بہت پہلے بھی تھا توان کو یہ غم کھاگیا کہ سلفیت کووہابیوں کے یہاں رواج حاصل ہوا، ا ور وہابیوں ن نے سلفیت کا استعمال یہ باور کرانے کے لیے کہ وہ مذہب سلف پر گامزن ہیں، منہج سلف کے وہی حامی وپاسدار ہیں۔ اگر سلفیت کا رواج وہابیوں میں ہوگیا تو کیا یہ لفظ مکروہ ہوگیا؟ کتنی پھسپھسی معیار تحقیق سے گری ہوئی غیت علمی بات ہے۔ اور یہ کہ شیخ
[1] السفیۃ مرحلۃ زمنیۃ (ص ۲۳۵۔ ۲۳۶)