کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 51
مشورہ دیاگیا کہ آپ یہ نام بھی رکھ لیجیے، وہ نام بھی رکھ لیجیے۔ یہاں تک کہاگیا کہ اپنا نام قادیانی رکھ لیجیے، وہ اپنے کواحمدی کہتے ہیں اور آپ محمدی ہیں ؎ خوب گزرے گی جومل بیٹھیں گے دیوانے دو[1] اس مہذب ومخلصانہ مشورہ پر ہم شکریہ ادا کرنے کےعلاوہ کچھ عرض کرنے سے بروقت قاصر ہیں۔ ہوسکتا ہے آگے چل کر کچھ عرض کریں۔ ا س وقت اتنا ہی عرض کریں گے کہ کیایہی مشورہ آپ تیسری، چوتھی صدی ہجری کےعلماء سلف کوبھی دیں گے اگر حوالہ کے ساتھ آپ کویہ بتلادیاجائے کہ وہ بھی اپنے محمدی، اہل حدیث، اہل الاثر کہلانا پسندکرتےتھے ؟؟ اسلامی ناموں یا القاب پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے کہ اگر کوئی جماعت یافرد اپنے لیے کوئی نام منتخب کرے تو دوسرا س کوڈاکو، غاصب قراردے۔ اگر آپ کویہ نام بھلے لگتے ہیں۔ ۔ ۔ اور الحمد للہ یہ تمام نام دیگر ناموں کے مقابلے میں بہت ہی بھلے ہیں۔ ۔ ۔ توآپ بھی ان کو اپنالیجیے، کسی کوکوئی اعتراض نہیں ہوگا اور نہ ہوناچاہیے، لیکن شاید ہی آپ ان کواختیار کریں، کیونکہ آپ معبود بننا پسند نہیں فرمائیں گے۔ آپ نے اپنی گردن میں ایک ایسا جواپہن رکھا ہے جو کبھی بھی آپ کو ان ناموں کےا ختیار کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ اور جہاں تک لفظ ”اسلام“ کاتعلق ہے تواس سے زیادہ موزوں اورصحیح کوئی دوسرا لفظ ہر گزنہیں ہوسکتا، اسی بناء پر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے بطور دین اسی لفظ کو پسندفرمایا ہے۔ کیابوطی صاحب اور برصغیر میں ان کی ہم نوائی کرنے والے حضرات اس کی توجیہ بیان کرسکتے ہیں کہ اسلام کی موزونیت اور صحت کے باوجود انہوں نے حنفیت و شافعیت، اشعریت وماتریدیت، نقشبندیت وقادریت، چشتیت و سہرویت، دیوبندیت وبریلویت، قاسمیت ورضاخانیت وغیرہ وغیرہ القاب کیوں اختیار کئے۔ صرف اسلام پر کیوں نہیں اکتفا کیا؟؟
[1] غیرمقلدین کی ڈائری( ص ۸۷)