کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 50
عظیم معانی کولفظ ”سلف “یا “سلفیت “ کے بجائے کسی دوسرے شعار سے بھی مربوط کیاجاسکتا تھا۔ ا ور کیا خود لفظ ”اسلام ”سے بھی زیادہ کوئی موزوں اور صحیح لفظ ان معانی کی ترجمانی کےلیے ہوسکتاہے“ ؟[1] کیایہ تناقص نہیں ہے ؟ ”سلفی“ کی تعریف میں موصوف نے کیاکہاہے، اسے نقل کیاجاچکاہے، ا سے ملاحظہ فرمائیں، ا ور یہاں جو کچھ فرمارہے ہیں، ا س سے موازنہ کیجیے۔ موصوف کی تضاد بنانی ازخود واضح ہوجائے گی۔ جن امور کی سلفیت میں دعوت دی جاتی ہے انہیں حقیقت اسلام کی صحیح ترجمانی کرنے والے عظیم اورصاف ستھرے معانی قرار دے رہے ہیں، یہی نہیں بلکہ آگے چل کر موصوف اپنی اسی کتاب میں بالکل برعکس موقف اختیار کرلیتے ہیں، اور جارحانہ تنقید سے رجوع کرتے ہوئے سلفیوں کوبرادرانہ طور پر نصیحت اور ان کو اپنے عقیدہ ومذہب پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہنے کی تلقین کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور خود اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ بھی شخصی طور پر انہی آراء ومذہب پر نہ صرف قانع ومطمئن ہیں بلکہ ان کو اختیار بھی کرتے ہیں اور ان کا دفاع بھی کرتے ہیں “۔ [2] اس سے بجاطور پر یہی نتیجہ اخذ کیاجاسکتاہے کہ موصوف کوصرف لفظ ”سلفیت“سے چڑ ہے۔ توکیاموصوف اس بات کی ضمانت دے سکتے ہیں کہ سلفیت کے بجائے اگر کوئی دوسرا لفظ اختیار کیاجاتاتواسے اپنی منظوری دے دیتے ؟ مشاہدات وتجربات کی روشنی میں یہی کہاجاسکتا ہے کہ سلفیت کے بجائے کوئی دوسرا لفظ اختیار کیاجاتا توبھی منظوری نہیں حاصل ہوتی، کیونکہ برصغیر کی جماعت نے اپنے لیے اہل حدیث، محمدی، موحد، اہل الاثر وغیرہ جیسے پاکیزہ صاف ستھرے الفاظ جو سلف سے منقول ہیں منتخب کیا پھر بھی بارگاہ تقلید میں ان کو پذیرائی نہیں حاصل ہوسکی، مبغوض ہی رہے، بکلکہ منبوذ (اچھوت) قرار پائے [3] ان ناموں کے اختیار کرنے پر انہیں ڈاکو، غاصب، ا ور نہ جانے کن کن القاب وآداب سے نوازا گیا بلکہ حددرجہ تیکھے لہجہ میں ان کو
[1] السلفیۃ مرحلۃ زمنیۃ (ص۲۳۳) [2] ایضاً (ص۲۴۶) نیز ملاحظہ ہو:التعریف بکتاب السلفیۃ مرحلہ زمنیۃ (ص ۲۵۔ ۲۶) [3] مسائل غیرمقلدین (ص۲۴۹)