کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 48
اسے اچھی طرح یہ بھی معلوم ہوگا کہ یہ مکمل اسلام کی جانب نسبت ہے کواہ احکام وآداب کا معاملہ ہویااخلاق وعقائد کا۔ جیساکہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً ﴾ (البقرۃ :208) ترجمہ : ’’مسلمانوں ! پوری مسلمانی میں آجاؤ۔ ‘‘ اور جیساکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :” عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ, تَمَسَّكُوا بِهَا، وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ, فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ[1] ترجمہ: ’’میری سنت اور میرے بعد ہدایت یاب خلفاء راشدین کی سنت کولازم پکڑو، (بلکہ) اسے دانتوں سے مضبوطی کے ساتھ پکڑلو۔ ا ور( دین میں ) نئی باتوں سے بچو، (اس لیے کہ) ( دین میں ) ہر نئی بات بدعت ہے، اور ہر بعدت گمراہی وضلالت ہے۔ ‘‘ اورا س معنی میں سلفیت پر کسی مخصوص جماعت ۔ ۔ ۔ جواس نام سے ازخود یادوسروں کے دیے ہوئے لقب کی بناء پر معروف ہے۔ ۔ ۔ ۔ کی اجارہ داری نہیں ہے۔ لہٰذا دلائل کی روشنی میں اگر یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ تمام ائمہ مذاہب سلفی تھے، تو متعصب مقلدین مذاہب کو کسی اچھنبے کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ انہیں سلفی اس لیے کہاجاتاہے کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے نقش قدم پر گامزن تھے، اور وہ اس نسبت سے عصر حاضر کی اسلامی جماعتوں اورتحریکوں سے کئی صدیاں پہلے معروف تھے، جبکہ اسلامی ممالک مختلف فرقوں کے فتنوں میں مبتلا تھے ۔ لہٰذا ائمہ اربعہ وسردار ہیں جو اس نسبت کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے، بلکہ سلفیوں سے عداوت ودشمنی کو شرعی فریضہ، اخلاقی ذمہ داری اور دینی شرافت تصور کرتے ہیں۔ “[2] سابقہ وضاحتوں سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ یہ ایک قدیم اصطلاح ہے، ا ور زمانہ قدیم سے اس نام سے ایک جماعت کا وجود رہاہے۔ کم ازکم علامہ
[1] ملاحظہ ہو، سنن أبی داود، کتاب السنۃ (۵/۱۳حدیث نمبر ۴۶۰۷ تحقیق عزت الدعاس) وسنن الترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء فی لأخذ بالسنۃ (۵/۴۴ حدیث نمبر ۲۶۷۶) [2] ھی السلفیۃ (ص۱۸۔ ۱۹)