کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 47
”بفتحین نسبة إلی طریقة السلف “ ابواسحاق ابراہیم بن عمر الجعری السلفی کی وفات ۷۳۲ھ میں ہوئی ۔ [1]
ڈاکٹر مصطفیٰ حلمی کہتےہیں : ”اصطلاح سلف کا اس وقت ظہور ہواجب اصول دین (عقائد ) کے با ب میں متکلمین کے مختلف فرقوں کے مابین نزاع کا ظہور ہوا“ [2]
سلفی مکتب فکر کےا صول وقواعد کی تحدید وتعیین کے سلسلے میں مزید لکھتے ہیں :
”اہل کلام کے مختلف فرقے جب آپس میں باہم دست وگریبان ہوئے اور ہر ایک کی یہ کوشش رہی کہ اپنے سلف سے منسوب کرے تو سلفی مکتب فکر کےلیے ایسے واضح ور دوتوک اصول وضوابط کی نشاندہی ضروری تھی جس سے مدعیان سلفیت کی تمییز ہوسکے اور جواسلامی عقائد کاصحیح فہم اور ادراک حاصل کرنے کےلیے رہنما اصول کی حیثیت رکھتے ہوں “ [3]
اسلامی مذاہب کی تاریخ کا مطالعہ کرنے والے بعض متاخر اہل قلم نے ”سلفیت “ کی تعریف میں لکھا ہے کہ یہ امتیازی حیثیت رکھنے والی ایک جماعت ہے، جواس نام سے مشہور ہوگئی ہے، درحقیقت یہ اما م احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مکتب فکر کا امتداد ہے جس کا ظہور چوتھی صدی ہجری میں ہوا، ا ورساتویں صدی ہجری میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور بارہویں صدی ہجری میں شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے ہاتھوں اس کی تجدید ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس جماعت نےخود اپنے لیے اس نسبت کومنتخب اور اختیار کیاہے۔ [4]
لیکن شیخ محمد ابراہیم شقرۃ سلفیت کوایک قدیم اصطلاح قراردیتے ہوئے لکھتے ہیں :
”یہ اصطلاح ان لوگوں کی ایجاد کردہ نہیں ہے جوابتداً اس نسبت سے معروف ہوئے۔ ا ور یہی فرق ہے سلفیت کی نسبت رکھنے والوں اور دیگر اسلامی جماعتوں اور تحریکوں کے مابین جواپنے مؤسسین اور بانیوں کے اختیار کردہ ناموں سے موسوم کی جاتی ہیں۔
کوئی بھی شخص جس کوسلفیت کی حقیقت اور اس کی تاریخ سے آشنائی حاصل ہوگی
[1] مفتاح السعادۃ ۲/۴۶
[2] قواعد المہج السلفی (ص۲۵۳)
[3] ایضاً
[4] ملاحظہ ہو: تاریخ المذاہب الاسلامیۃ مولفہ محمد ابوزہرہ (ص۱۸۷) اسلام بلامذہب مؤلفہ ڈاکٹر مصطفیٰ شکعہ (ص۴۹۹۔ ۵۰۰)