کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 46
(۲)سلفیت کی ابتداء اگرہم اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ سلفیت یاسلفی دعوت کتاب وسنت پر مبنی خالص اسلام کی دعوت ہے، جواسلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر اس دنیا میں تشریف لائے تھے، اور جس کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ سے حاصل کیا تھا جو ہر طرح کے بیرونی اثرات سے پاک وصاف تھا، اس اسلام کی طرف لوٹنے کی دعوت کانام سلفیت ہے ( اوردرحقیقت یہی ہے بھی خواہ ہم تسلیم کریں یا نہ کریں ) تو یہ دعوت اتنی ہی پرانی ہے جتنا پرانا اسلام ہے، یہ بعد کی پیداوار نہیں ہے، جیساکہ پروپیگنڈہ کیاجاتاہے ۔ البتہ لفظ ”سلفیت “یا ”سلفی“ کا استعمال بطور اصطلاح ”اہل السنۃ والجماعۃ “ کی طرح نیا ہے۔ جس ضرورت کے تحت اھل السنۃ والجماعۃ کا وجودعمل میں آیا اسی ضرورت کے تحت سلفیت کا وجود بھی ظہور پذیر ہوا۔ لیکن اس کی تحدید وتعیین کہ کب اور کہاں یہ اصطلاح رائج ہوئی، قدرے مشکل امر ہے۔ تاہم اتنا طے ہے کہ یہ قدیم اصطلاح ہے، اس کو عصر حاضر کی پیداوار بتلا نا، یاشیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی اصطلاحی تحریک سے مربوط کرنا، یا مغربی استعمار سے منسلک کرنا قطعاً روا، غیرذمہ دارانہ اور اوچھی حرکت ہے۔ ”سلفی “ کی لغوی واصطلاحی تشریح کے وقت علامہ سمعانی (متوفی ۵۶۲ھ) اور علامہ ابن الاثیر ( متوفی ۶۳۰ھ) سے نقل کیا جاچکاہے کہ لفظ ( سلفی ) ”سلف اور اتباع مذاہب سلف کی طرف منسوب ہے“اور دونوں نے ہی اپنے اپنے زمانے میں اس نام سے ایک جماعت کے وجود کی خبردی ہے جواس بات کی واضح دلیل ہےکہ چھٹی صدی ہجری میں، بلکہ اس سے بھی ماقبل ”سلف“ کے نام پر ایک جماعت کا وجود رہاہے۔ اور اس نسبت سے بعض اہل علم معروف بھی تھے۔ چنانچہ طاش کبری زادہ نے تاریخ علوم وفنون پر اپنی معروف ومشہور کتاب 'مفتاح السعادۃ “ میں ابواسحاق ابراہیم بن عمر الربعی الجعری السلفی کا تذکرہ کیاہے اور لفظ ”السلفی “ کا ضبط کرتے ہوئے لکھتے ہیں: