کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 43
”سلفی“اور ”سلفیون“ کا بھی ہے “۔
موصوف نے مزید کہا :
”اگر ہم اپنے آپ کوسلفی کہتے ہیں تو بوقت ضرورت دوسروں سے تمیز کےلیے، جس طرح اللہ رب العزت نے انصار کو لفظ ”انصار “سےممتاز کیا، ا ور مہاجرین کو لفظ مہاجرین “سے۔ ا ور اس تمیز پر وہ راضی ہوا۔ جبکہ انصار ومہاجرین دونوں ہی ایک امت تھے، ا ور سب کے سب مسلمان تھے، لہٰذا اگر ہم کو تمیز کی ضرورت پیش آئی تو( اپنے آپ کو ”سلفی “ کے قلب سے) ممتاز کرسکتے ہیں۔ “ [1]
ایک محقق ڈاکٹر محمد باکریم لفظ سلفیت کے استعمال پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”اس نسبت کے استعمال پر میں نے قدیم وجدید کسی ایسے عالم کو نکیر یا اعتراض کرتے ہوئے نہیں پایا جوبزات خود سنت کا التزام کرتا ہواور سنت کی دعوت دیتا ہو۔ ا س اصطلاح کواستعمال کرنے یا اس کی طرف انتساب کے جواب میں کم ازکم اتنا توضرور ہی کہاجاسکتاہے کہ یہ ایک اصطلاح ہے، ا ور اصطلاح کےاختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، (لامشاحة فی الاصطلاح ) جبکہ واضح طور پر یہ معلوم ہے کہ اصلاً اس کا معنی درست ہے، جیساکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے نقل کیاجاچکاہے۔ “ [2]
یہاں محمد ابراہیم شقرہ کا قول نقل کردینا مناسب ہوگا۔ موصوف لفظ ”سلفیت : کے استعمال پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”(صورتحال یہ ہے کہ ) لفظ ”سلفیت “ نے ایک علمی اصطلاح کی حیثیت سے اپنے آپ کومنوالیا ہے، جس کوتاریخ نے بھی برقراررکھا اور امت نے بھی مرورزمانہ کے ساتھ اس کو قبول کیاہے۔ یہاں تک کہ ہم نے کہنے والے کوکہتے ہوئے سنا(حالانکہ ان کا یہ کہنا درست نہیں ہے ) : طریقة السلف أسلم، وطریقة الخلف أعلم وأحکم “ [3] لہٰذا اس لفظ کوبطور ایک ٹھوس، ہمہ گیر علمی اصطلاح کی حیثیت سے
[1] مجلۃ الفرقان، ا لکویت مجریہ بابت شوال ۱۴۱۷ھ شمارہ ۸۳(ص۲۷)
[2] وسطیۃ اھل السنۃ (ص۱۰۷) (مقالہ برائے پی، ایچ، ڈی)
[3] یعنی ”سلف کے طریقہ میں (دین وایمان کی) سلامتی زیادہ پائی جاتی ہے، ا ورخلف کے طریقہ میں زیادہ علم اور زیادہ
پختگی پائی جاتی ہے۔ “ معنی ومفہوم اور نتیجہ پر غور کیے بغیر ایک مسلمہ حقیقت کی حیثیت سے اس مقولہ کودہرایاجانے لگا۔ مبنی برفساد مذکورہ مقولہ کی بنیاد متاخرین جن کا یہ نظریہ ہے کہ سلف کتاب وسنت کے الفاظ پر بغیر فہم وادراک کے ایمان رکھتےتھے جبکہ خلف (متاخرین) ان کا فہم وادراک حاصل کرنے کے بعد ہی ان پر ایمان رکھتےتھے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خلف کا طریقہ اور منہج جوعقل ومنطق کے معیار پر پورااترتاہے سلف کے طریقہ ومنہج سے افضل وبرتر ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مذکورہ مقولہ کی اس کے مفہوم اور اس پرمرتب ہونے والے نتیجہ کی وضاحت کرتے ہوئے سخت ترین لہجے میں تردید کی ہے، لکھتے ہیں :” اس کا مفہوم یہی نکلتا ہے کہ :اسلام اور اس کی تعلیمات کوپس پشت ڈال دیاجائے۔ جن لوگوں نے یہ بات کہی ہے انہوں نے درحقیقت طریقہ سلف پر بہتان تراشی کی ہے اور طریقہ خلف ( جویونانی فلسفہ کاچربہ ہے) کی تصحیح کر کے اپنی جہالت کا ثبوت دیاہے۔ اس طرح انہوں نے سلف پر بہتان تراشی کرکے طریقہ سلف سے جہالت وناواقفیت، اور طریقہ خلف کی تصحیح وتصویب کرکے جہالت وگمراہی کواپنے یہاں اکٹھا کیاہے “۔ موصوف مزید فرماتے ہیں :” یہ بالکل محال بات ہے کہ قرون مفضلہ یعنی عہد نبوی، عہدصحابہ اور عہد تابعین کے لوگ عقیدہ کے باب میں حق مبین سے ناواقف اور اس کو زبان سے ادا کرنے والے نہیں تھے۔ کیونکہ اس کایہی مفہوم نکلتا ہے کہ وہ حق بات سے یاتوجاہل اور حق بات کہنے والے نہیں تھے، یا پھر حق کے خلاف عقیدہ رکھنے والے اور سچ کےخلاف کہنے والے تھے۔ اور یہ دونوں باتیں بالکل ممنوع اور محال ہیں۔ پہلی بات اس لیے محال ہے کہ عقیدہ کے باب میں بحث وجستجو اور حق کی تلاش ومعرفت ہرا س شخص کا اولین مقصد ومطلب حیات ہے جس کے یہاں زندگی کی ادنی رمق، علم کی طلب، اللہ کی عبادت اور اس کے تقرب کی ادنی خواہش پائی جائے گی۔ میری مراد ان امور کی وضاحت ہےجن کو بطور عقیدہ اپنا ناضروری ہے نہ کہ رب اور اس کے صفات کی کیفیت وحقیقت کی وضاحت ہے، آلائشوں سے پاک نفوس امور عقیدہ سے بڑھ کر کسی دوسری چیز کی معرفت کا شوق ہی نہیں رکھتیں۔ یہ ایسا معاملہ ہے، جس کی فطرت ووجدان بھی شہادت دیتے ہیں، اس قسم کے قوی ترین سبب کے پائے جانے کے باوجود کس طرح یہ تصور کیاجاسکتاہے کہ یہ پاک طینت نفوس اس قمصد سے پیچھے رہ سکتی ہیں۔ یہ تو بلید ترین شخص اور اللہ تعالیٰ سے اعراض کرنے والابھی نہیں سوچ سکتا۔ اور دوسری بات ہے کہ وہ حق کےخلاف عقیدہ رکھنے والےا ور حق کےخلاف کہنے والے
تھے تواس کا کوئی مسلمان فرد یا صاحب عقل جوان کی حالت سےواقف ہے نہیں کہہ سکتا۔ ۔ ۔ ۔ اس قسم کی بات سہی غبی شخص کہہ سکتاہے جس کوسلف صالحین کے مقام ومرتبہ بلکہ اللہ ورسول اور مومنین کے مقام ومرتبہ کی صحیح معرفت نہیں حاصل ہے “۔ (الفتوی المحمودیۃ الکبری (ص۱۲۔ ۱۳ بتصرف ) بہرحال سلف کا طریقہ اسلم ہونے کے ساتھ اعلم واحکم بھی ہے، اس کے مخالف تمام طرق غلط، راہ حق سے بھٹکے ہویئ اور ناقابل اتباع ہیں۔