کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 41
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر اس دنیا میں تشریف لائے تھے اور جس کو صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے آپ سےحاصل کیاتھا۔ اگر سلفیت کا یہی مفہوم ہے اور حقیقتاً یہی ہے بھی، توسلفی دعوت حق ہے۔ اس کی طرف انتساب بھی حق ہے۔ لہٰذا سلفی نسبت اختیار کرنے میں شرعی اعتبار سے کوئی قباحت نہیں۔ ایسے شخص کے بارے میں جویہ کہتاہے: میں مذہب سلفی پر قائم ہوں، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”ایسے شخص کو مطعون نہیں کیاجائے گا جومذہب سلف کے التزام کوظاہر کرتا ہےا ور مذہب سلف کی طرف اپناانتساب کرتاہے، باتفاق آراء اس کی اس بات کوقبول کیاجائے گا، ا س لیے کہ سلف کا مذہب حق ہے۔ “[1] اورموصوف خود اپنی بعض تصنیفات میں ان لوگوں کوجواللہ تعالیٰ کی فوقیت یعنی اس کے مستوی علی العرش ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں ”سلفی “لقب سے یاد کیا ہے۔ [2] ولقد نصر السنة المحضة والطریقة السلفیة، واحتج لھا ببراھن ومقدمات لم یسبق إلیھا۔ ۔ ۔ ۔ “ ’’یعنی ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے سنت محضہ اور سلفی طریقہ کی حمایت کی، ا وراس کے لیے ایسے دلائل اور مقدمات سے احتجاج کیا جوان سے پہلے کسی سے بھی بن نہ آئے تھے۔ ‘‘ [3] علامہ ابن خلدون نے بھی قدیم علماء متکلمین کے کارناموں کوسراہتے ہوئے عقل ومنطق کی روشنی میں سلفی عقائد کا دفاع اور ان کی صحت کا اثبات ان کا عظیم کارنامہ بتلایا ہے اور ایک سے زائد بار ”العقائد السلفیۃ” کا استعمال کیاہے۔ [4]
[1] مجموع الفتاویٰ (۴/۱۴۹) [2] بیان تلبیس الجھمیة (۱/۲۳۱، ۲۵۵ [3] ملاحظہ ہو: مقالات داؤد غزنوی (ص ۲۳۱، ۲۵۵، [4] مقدمہ ابن خلدون (ص۴۹۶ ط :دارالکتب العلمیۃ بیروت، ط:۱۳۹۸، ۴ھ