کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 390
قرار دیاہے، تواس طرح ایک نہیں دو نہیں بلکہ پچاسوں مسائل میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو بقیہ تینوں ائمہ کرام سے الگ تھلگ دکھلایاجاسکتاہے۔ کیاموصوف غازی پوری اپنےاندر اس بات کی جرأت وہمت پاتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے تنہا اختیار کردہ مسائل کو جمہور امت کےمخالف اور شاذ قرار دے سکیں ؟ یقین جازم ہے کہ وہ ہر گز ہر گز ایسا کرنے کی ادنی ہمت بھی اپنے اندر نہیں پائیں گے۔ لہذا انہیں اس طرح کا جابرانہ وجائرانہ حکم لگانے سے باز آجانا چاہیے ۔ اس طرح کے رویہ سےا ن کی عاقبت بننے کے بجائے بگڑ سکتی ہے یا یہ کہ انہیں اپنی عاقبت کےخراب نہ ہونے کا یقین کامل ہو۔ کیونکہ تمام احناف کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے مغفرت کا پروانہ مل چکاہے، جیساکہ درمختار میں مذکور ہے لہذا انہیں اپنی عاقبت کےخراب ہونے کا کوئی غم نہیں ہے۔
مولانا غازی پوری کی امانت داری (؟ ) کا اچھوتا نمونہ
مولانا غازی پوری ( دامت برکاتہم) عبارتوں کے نقل کرنے میں کتنے امانت دار واقع ہوئے ہیں اس کا علم قارئین کرام کو ہوگیاہوگا۔ لگتا ہے کہ عبارتوں میں خردبرد کئے بغیر ان کو تسلی ہی نہیں ہوتی۔ لکھتے ہیں :
فتاوی نذیریہ میں ہے خاص کر نابالغ لڑکے کو امام بنانا خواہ فرض ہوں یا نفل جیسے تراویح درست ہے، کیونکہ احادیث صحیحہ میں آگیاہے کہ عمر وبن سلمہ جوسات برس کے تھے اور امامت کرتےتھے [1]
سابقہ سطور میں متعلقہ مسئلہ کی مکمل عبارت نقل کی جاچکی ہے، قارئین کرام سے گزارش ہے کہ ان کے درمیان موازنہ کرکے بیچ سے حذف کی گئی عبارتوں پر غور کریں اور دیکھیں کہ حذف کی گئی یہ عبارتیں مسئلہ کی وضاحت میں کتنی اہمیت کی حامل ہیں۔ ا ور اسی عمل کے ذریعہ مولانا امانت دار صاحب کو تین چار صفحات سیاہ کرنے، صحابی رسول اور حدیث رسول سے مخول کرنے کا موقع بھی ہاتھ آگیا۔
[1] مسائل غیرمقلدین ۱۷۹)