کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 389
لیتے ہیں۔ پتہ نہیں اس دوہری پالیسی کی کیاوجہ ہے ؟ بطاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اہل حدیثوں کے اختیار کرلینے کی وجہ سے وہ مسئلہ ان کی نظر میں مبغوض ہوجاتاہے، ا ور ہر طرح سے قابل طعن وتشنیع ہوجاتاہے خواہ اسے کسی نے اختیار کیاہو، ورنہ کیاوجہ ہوسکتی ہے کہ ایسے قول کے اختیار کرنے پر اہل حدیثوں کی نیش زنی کی جائے اور اس پر اپنی جانب سے مختلف حکم عائد کئےجائیں جس کو ائمہ اربعہ میں سے بعض نے اختیار کیاہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ حضرت عمروبن سلمہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ”یہ حدیث ہوشیار لڑکے کی فرض نماز میں امامت کے سلسلے میں شافعیوں کے لیے حجت ودلیل ہے، ا ور یہ ایک مشہور اختلافی مسئلہ ہے۔ ان لوگوں نے انصاف سے کام نہیں لیا جویہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کے قبیلے کے لوگوں نے اپنےا جتہاد سےا ن کو امام بنالیاتھا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس امر کی اطلاع نہیں تھی۔ اس لیے کہ یہ عدم ثبوت کی شہادت ہے ( جب کہ عدم ذکر عدم ثبوت نہیں لازم آتاہے) اور اس لیے کہ نزول وحی کے زمانے میں کسی ناجائز امر کو باقی نہیں رکھاجاسکتاہے۔ [1] یہی بات حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے دوسری جگہ بھی مزید تفصیل کے ساتھ لکھی ہے، ا ور حدیث پر کیے گئے مختلف اعتراضات کا جواب دیاہے [2]اس مسلک کو جمہور امت کےخلاف کہنے والے اور اس پر شذوذ کا خانہ ساز حکم عاید کرنے والے فقیہ دوراں مولوی ابوبکر غازی پوری کی تعصب کی عینک ہٹا کر اس کا مطالعہ کرنا چاہیے اس کے بعد شذوذ اور جمہور امت کی مخالفت کا تیر داغنا چاہیے۔ ا گر موصوف غازی پوری محض اس بناء پر اہل حدیثوں کے اختیار کردہ اس مسلک کو شاذ یا جمہور امت کےخلاف بتلارہے ہیں اور نہایت مکروہ اندازسے ان پر تیر وتفنگ چلارہے ہیں کہ ائمہ اربعہ میں سے تین ائمہ کرام امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ نےا س کے برخلاف ہوشیار بچے کی امام کو نادرست
[1] فتح الباری (۸/۲۳) [2] فتح الباری (۲/۱۵۵)