کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 388
موصوف غازی پوری کاخانہ ساز حکم
قارئین کرام ! آئیے ذرا نفس مسئلہ پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شریعت کے دیگر بے شمار مسائل کی طرح اس مسئلے میں بھی ائمہ کرام کا اختلاف ہے۔ جس طرح متعدد ائمہ کرام نےنابالغ لڑکے کی امامت کو ناجائز قراردیاہے اسی طرح متعدد ائمہ کرام نے حضرت عمروبن سلمہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے پیش نظر ہوشیار قرآن پڑھنے والے لڑکے کی امامت کوجائز قرار دیاہے۔ چونکہ اہل حدیث نےاس مسلک کو اختیار کرلیا وہ بھی دلیل کی روشنی میں، لہذا موصوف غازی پوری کی نظر میں یہ مسلک مبغوض ہوگیا، خواہ اس کو کسی نے بھی اختیار کیاہو۔ موصوف نے ایک سے زائد بار لکھتے ہیں کہ غیر مقلدوں کا یہ مذہب جمہور امت کےخلاف ہے۔ گویا جمہور امت ان کی جیبوں میں بستے ہیں جس مسئلہ کو چاہا جمہور امت کے موافق اور جس کو چاہا جمہور امت کےخلاف لکھ مارا۔
بلکہ ایک جگہ پوری جرأت کے ساتھ اس کو مذہب شاذ قرار دیاہے [1]اور عجیب وغریب بات یہ ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بار بار حوالہ دیاہے۔ گویا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید سے دست بردار ہوکر امام احمد رحمہ اللہ کےمقلد ہوگئے۔ ا ور جس جر أت کے ساتھ اس مذہب کو جمہور امت کےخلاف اور قول شاذ قرار دیاہے لگتا ہے علامہ نووی، حافظ ابن حجر بلکہ طحاوی (رحمہم اللہ ) کے ہم عصر اور ہم پلہ ہیں۔ جس مصدر کا انہوں نے بار بار حوالہ دیاہے، اس میں اس بات کی جانب اشارہ تک نہیں کیاگیاہےکہ یہ قول شاذ اور جمہور امت کےخلاف ہے بلکہ اسے حضرت حسن بصری، امام شافعی، امام اسحٰق اورا مام ابن المنذر ( رحمہم اللہ ) کی جانب منسوخ کیاگیاہے [2]
ایک طرف یہ لوگ ائمہ اربعہ کےبرحق ہونے کا ڈنکا بجاتے ہیں دوسری طرف ان کے اختیار کردہ قول کو شاذ، جمہور امت کے خلاف قرار دیتے ہوئے طعن وتشنیع سے بھی کام
[1] مسائل غیر مقلدین (ص:۱۷۹، ۱۸۱)
[2] المغنی لابن قدامہ (۳/۷۰ تحقیق ڈاکٹر ترکی، عبدالفتاح علو)