کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 387
ترجمہ کیا ہے، ا ور اسی پر ان کی نظر جم کررہ گئی جس کی بناء پر انہوں نے اپنے اسی پسندیدہ لفظ کابار باراعادہ کرکےاپنے ذوق کو تسکین پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ حدیث کے بقیہ الفاظ یا دیگر روایات پر ان کی نظر ہی نہیں گئی، ا ور نہ ان پر نظر ڈالنے کی انہوں نے ضرورت ہی محسوس کی، ا ور نہ ان کو اس کا موقع ہی ملا۔ اگر انہوں نے موقع نکال کر حدیث کےتمام الفاظ پر اور اس کی تمام روایات پر غور کرلیا ہوتا توشاید انہیں غیرمقلدین سے کسی قسم کی وضاحت طلب کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی اور نہ اس حدیث کو موقوف شمار کرتے۔ راقم نے حدیث کےبعض الفاظ ا ور اس کی بعض دیگر روایات کی جانب اشارہ کردیا، ہوسکتاہے ان سے موصوف کےلیے بات صاف ہوجائے کہ نماز میں حضرت عمروبن سلمہ رضی اللہ عنہ کی شوق میں یا لڑکپن کی وجہ سے بے ستری نہیں ہوئی تھی بلکہ بندرجہ مجبوری تنگدستی کی وجہ سے ایسا ہوجاتاتھا۔ ان کے اپس کپڑوں کی کمی تھی۔ آج بھی کسی کوایسی مجبوری پیش آجائے کہ اس کے یہاں کپڑے کی تنگی ہوتو بغیر کسی کراہت کے بے ستری کی حالت میں بھی اس کی نماز ہوجائےگی‘بلکہ کپڑا فراہم نہ ہونے کی صورت میں ننگے بھی نماز ہوجائے گی۔ پتہ نہیں کس وجہ سے آپ نے یہاں”الدین یسر“ والا کلیہ نظر انداز کردیا اور آیت ”یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ “اور حدیث يَسِّرَا وَلَا تُعَسِّرَا، وَبَشِّرَا وَلَا تُنَفِّرَا “ کا سبق بھول گئے یایہ کہ آپ کی نظر میں اسلام کی ساری آسانیاں عورت کے ساتھ ہی مخصوص ہیں اور آپ اہل یورپ کی طرح جنس لطیف کے تئیں کافی ہمدردانہ جذبات اپنے دل میں رکھتے ہیں، جیساکہ آپ نے اسی قسم کے جذبات کا یک جگہ اظہاربھی کیاہے۔ لہذا دین کی آسانی آپ کو صرف وہیں نظر آئی۔ یہاں نہیں نظر آئی اور جہاں تک حدیث کےموقوف ہونے کی بات آپ نے کہی ہے توحدیث کا مکمل نص لے کر مصطلح الحدیث کے کسی طالب علم کے پاس جائیے وہ آپ کو بڑی آسانی کے ساتھ سمجھادے گا کہ یہ حدیث موقوف ہے یا مرفوع ؟